الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
4. بَابُ : مَنْ لاَ يُؤْبَهُ لَهُ
4. باب: جس کی لوگ پرواہ نہ کریں اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 4118
حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحِمْصِيُّ , حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ الْحَارِثِيِّ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْبَذَاذَةُ مِنَ الْإِيمَان" , قَالَ: الْبَذَاذَةُ الْقَشَافَةُ يَعْنِي: التَّقَشُّفَ.
ابوامامہ حارثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے ایمان کا ایک حصہ ہے، سادگی بے جا تکلف کے معنی میں ہے، یعنی زیب و زینت و آرائش سے گریز کرنا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4118]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الترجل 1 (4161)، (تحفة الأشراف: 1745) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (4161)
فيه أيوب بن سويد ضعيف
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 525

   سنن أبي داودالبذاذة من الإيمان
   سنن ابن ماجهالبذاذة من الإيمان

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4118 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4118  
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
مذکورہ روایت کو یمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ سنن ابی داؤد کی تحقیق میں اسے حسن قراردیا ہے۔ دیکھیے: سنن ابو داؤد (اردو)
طبع دارالسلام حديث: 4161)
علاوہ ازیں شیخ البانی نے اس حدیث پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے حسن قراردیاہے۔
بنا بریں تحسین حدیث والی رائے ہی درست معلوم ہوتی ہے جیساکہ ہمارے فاضل محقق نے ایک جگہ حسن قراردیا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الصحيحة للألباني رقم: 341)

(2)
تکلفات سے پرہیز ایمان کا جزء ہےلہٰذا سادہ عادات کا حامل عام نعمت پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے جب کہ زیب و زینت کا عادی بعض اوقات ایک بڑی نعمت کو بھی اپنے معیار سے کم تر سمجھتا ہےاور شکر کے بجائے شکوہ کرنے لگتا ہے۔

(3)
سادگی میں بہت چیزیں شامل ہیں مثلاً:
پیوند لگا کر کپڑا پہن لینا، زمین پر بیٹھ جانا، مفلس اور غریب کی بات سننے اور حتی الوسع مدد کرنے کو اپنی شان کے خلاف نہ سمجھنا، غریب کی معمولی دعوت قبول کرلینا اور اس کا پیش کیا ہواسادہ کھانا کھا کر احسان مندی کا اظہار کرنا۔
ملازموں سے تحقیر آمیز رویہ رکھنے سے اجتناب کرنا، اپنے سے کم تر درجے کے لوگوں کی خوشی اور غمی میں شریک ہونا وغیرہ۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4118