نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا: فلاں شخص آپ کو سلام کہتا ہے، انہوں نے کہا: مجھے خبر پہنچی ہے کہ اس نے دین میں بدعت نکالی ہے، اگر اس نے ایسا کیا ہو تو اسے میرا سلام نہ کہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”میری امت میں (یا اس امت میں) مسخ (صورتوں کی تبدیلی)، اور زمین کا دھنسنا آسمان سے پتھروں کی بارش کا ہونا ہو گا“، اور یہ قدریہ میں ہو گا جو تقدیر کے منکر ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4061]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/السنة 7 (4613)، سنن الترمذی/القدر 16 (2152)، تحفة الأشراف: 7651)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/108، 136) (حسن)» (سند میں ابو صخر ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: جو تقدیر کے منکر ہیں، ان کا نام تقدیر کے انکار کی وجہ سے قدریہ پڑا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4061
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: تقدیر کے انکار کا فتنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے دور ہی میں شروع ہوگیا تھا، اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس فتنے کی شناعت دیکھتےہوئے اندازہ لگایا کہ یہی گمراہ فرقہ اس قسم کے عذابوں کا مستحق ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4061
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 106
´منکرین تقدیر کا عبرت ناک انجام` «. . . وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَكُونُ فِي أُمَّتِي خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَذَلِكَ فِي الْمُكَذِّبِينَ بِالْقَدَرِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وروى التِّرْمِذِيّ نَحوه . . .» ”. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں زمین میں دھنس جانا اور صورت بدل جانا ہو گا اور یہ تقدیر کے جھٹلانے والوں میں ہو گا اس حدیث کو ابوداود و ترمذی نے روایت کیا ہے، یعنی تقدیر کے جھٹلانے والوں کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور ان کی صورت بگاڑ دی جائے گی، یعنی اگر مسخ ہو تو منکرین تقدیر میں ہو گا۔ واللہ اعلم . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 106]
تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔ ● اسے بعض اختلاف کے ساتھ ابن ماجہ [4061] وغیرہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: «حسن صحيح غريب» اور اسے حاکم و ذہبی دونوں نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ دیکھئے: [المستدرک 84/1 ح285] ● اس حدیث کے راوی ابوصخر حمید بن زیاد کو جمہور محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے، لہٰذا وہ حسن الحدیث ہیں اور ان پر جرح مردود ہے۔
فقہ الحدیث: ➊ «خسف» کا مطلب زمین کا دھنس جانا اور «مسخ» کا مطلب شکلیں مسخ ہو جانا ہے۔ یہ امور قیامت سے پہلے اہل بدعت میں جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں واقع ہوں گے۔ بعض کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور بعض کی شکلیں مسخ ہوں گی اور ممکن ہے کہ بعض کے ساتھ دونوں کام بھی ہوں۔ «والله اعلم» ➋ تقدیر پر ایمان لانا فرض اور اس کا انکار حرام ہے۔ ➌ سنن ترمذی کی روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ (بدعت کبریٰ والے) اہل بدعت کے سلام کا جواب نہیں دینا چاہئیے۔ جب سلام کا جواب مشروع نہیں ہے تو ان کے پیچھے نماز پڑھنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ ➍ سنن ابی داود والی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بدعت سے (اگر بدعت کبریٰ ہو تو) ہجر (بائیکاٹ کرنا) بھی جائز ہے۔ ➎ یہ روایت غیب کی ان خبروں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتائیں اور اس کا وقوع ابھی باقی ہے۔ ➏ اس روایت میں امت سے مراد امت اجابت ہے۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 116
´منکرین تقدیر کے لیے سزا` «. . . عَن نَافِع أَن ابْن عمر جَاءَهُ رجل فَقَالَ إِنَّ فُلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ فَقَالَ لَهُ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ فَلَا تُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول يكون فِي هَذِه الْأمة أَو فِي أمتِي الشَّك مِنْهُ خَسْفٌ أَوْ مَسْخٌ أَوْ قَذْفٌ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ . . .» ”. . . سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آ کر کہا کہ فلاں شخص آپ کو سلام کہتا ہے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ اس نے دین میں نئی بات نکالی ہے یعنی بدعتی اور تقدیر کا منکر ہو گیا ہے، اگر وہ بدعتی ہو گیا ہے تو میرا سلام اسے نہ کہنا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ میری امت میں یا اس امت میں خسف اور مسخ، قزف ان لوگوں میں ہو گا۔ جو تقدیر کے منکر ہوں گے۔ اس حدیث کو ترمذی و ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 116]
تحقیق الحدیث: اس حدیث کی سند حسن ہے۔ اسے حاکم [84/1] اور ذہبی دونوں نے مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ اس روایت کے راوی ابوصخر حمید بن زیاد جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہیں، لہٰذا حسن الحدیث ہیں۔
فقہ الحدیث: ➊ بدعت کبٰری والے بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دینا چاہئیے۔ ➋ ضرورت یا شرعی عذر کی بنا پر اہل بدعت سے مکمل بائیکاٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ➌ قدریہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں اور یہ بدعت کبریٰ ہے۔ یاد رہے کہ اسماء الرجال کی کتابوں میں بعض لوگوں کو قدریہ میں شمار کیا گیا ہے، جیسے قتادہ وغیرہ، اس سے مراد تقدیر کا انکار کرنے والے نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ شر شیطان کی طرف سے ہے اور بہت سے لوگوں پر قدری ہونے کا الزام ہوتا ہے، جیسے مکحول وغیرہ لیکن تحقیق کے میدان میں یہ الزام باطل و مردود ہوتا ہے۔ ➍ قیامت سے پہلے امت مسلمہ کے بعض مبتدعین کے چہرے مسخ کئے جائیں گے اور بعض کو زمیں میں دھنسا دیا جائے گا اور بعض پر پتھروں کی بارش ہو گی۔ ➎ اہل ایمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ دلائل بیان کر کے مسلسل کتاب و سنت کا پرچم سر بلند رکھتے ہیں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2152
´قدریہ سے متعلق ایک اور باب۔` نافع کا بیان ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا: فلاں شخص نے آپ کو سلام عرض کیا ہے، اس سے ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ اس نے دین میں نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے، اگر اس نے دین میں نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے تو اسے میرا سلام نہ پہنچانا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اس امت میں یا میری امت میں، (یہ شک راوی کی طرف سے ہوا ہے) تقدیر کا انکار کرنے والوں پر «خسف»، «مسخ» یا «قذف» کا عذاب ہو گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2152]
اردو حاشہ: 1؎: خسف: زمین میں دھنسا نے، مسخ: صورتیں تبدیل کرنے اور قذف: پتھروں کے عذاب کو کہتے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2152