عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”مہاجرین کی جماعت! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو، (وہ پانچ باتیں یہ ہیں) پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں، دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں، تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا، چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے، پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمراں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4019]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7332، ومصباح الزجاجة: 1414) (حسن)» (سند میں خالد بن یزید ابن أبی مالک الفقیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ حسن ہے، حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے، اور یہ کہ یہ قابل عمل ہے)
خمس إذا ابتليتم بهن وأعوذ بالله أن تدركوهن لم تظهر الفاحشة في قوم قط حتى يعلنوا بها إلا فشا فيهم الطاعون والأوجاع التي لم تكن مضت في أسلافهم الذين مضوا ولم ينقصوا المكيال والميزان إلا أخذوا بالسنين وشدة المئونة وجور السلطان عليهم ولم يمنعوا زكاة أموالهم إ
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4019
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مصائب وتکالیف کے ظاہری اسباب کے علاوہ کچھ روحانی اور باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں۔ اگر عقائد واخلاق کی ان خرابیوں سے پرہیز کیا جائے تو اللہ تعالی ظاہری اسباب کو تبدیل فرمادیتا ہے۔
(2) بے حیائی کے نتیجے میں آتشک اور سوزاک جیسی بیماریاں پیدا ہوئیں۔ پھر ایڈز اور ہیپاٹائٹس وغیرہ کی بیماریاں سامنے آگئیں۔ کوئی معاشرہ بے حیائی سے جتنا محفوظ ہے، اسی قدر اس میں یہ بیماریاں کم ہیں۔
(3) ناپ تول میں کمی لالچ اور حرص کی وجہ ہوتی ہے۔ اس سے دوسروں کا حق مارا جاتا ہے اس لیے اس کی سزا بھی مالی نقصان اور قحط کی صورت ملتی ہے۔
(4) زکاۃ مال میں برکت کا باعث ہے۔ جب معاشرے میں زکاۃ دینے والے کم ہوجائیں تو اس کی سزا میں معاشرے کا رزق روک لیاجاتا ہے۔
(5) دوسروں پر رحم کرنے والے پر اللہ تعالی رحم کرتا ہے۔ اس کے برعکس دوسروں کو تکلیف پہنچانے والا۔ ان کی مدد نہ کرنے والا اور ان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے والا اللہ کے رحم کا مستحق نہیں رہتا۔
(6) اللہ اور اس کے رسول کے عہد سے مراد اسلامی ملک میں رہنے والے غیر مسلموں کے جائز حقوق کا تحفظ ہے۔ اس کے علاوہ اسلام قبول کرنے والا اللہ کی عبادت اور اس کے رسول اللہﷺ کی اطاعت کا عہد کرتا ہے۔ اس عہد کی خلاف ورزی بھی قوم کو سزا کا مستحق بنا دیتی ہے۔
(7) شریعت پر عمل کرنے سے اختلافات ختم ہوجاتے ہیں جس کے برعکس دنیوی مفاد کے لیے اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے خود غرضی کی عادت پختہ ہوتی ہے اور ایثار اور ہمدردی کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں اس کے نتیجے میں معمولی بات پر اختلافات شدت اختیار کر لیتے ہیں۔
(8) قومی صحت کی حفاظت کے لیے ملک سے فحاشی کے تمام ذرائع مثلاً فحش لٹریچر، ساز، رقص، فلمیں، مرد وعورت کا اختلاط، ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ کے بے ہودہ پروگرام وغیرہ کا سدباب ضروری ہے۔
(9) معاشی آسودگی اور اقتصادی ترقی کے لیے ملک میں دیانت داری کا چلن ضروری ہے۔
(10) پانی کی قلت موجودہ دور کا ایک اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اگر زکاۃ کے نظام کوصحیح بنیادوں پر قائم کرکے اسے شریعت کے مطابق چلایا جائے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ملکی دفاع کی مضبوطی کے لیےعقیدہ توحید کی توضیح و تبلیغ اور توحید کے صحیح تصور کو پختہ کرنا چاہیے۔ تب اللہ کی وہ مدد آئے گی جس کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے۔ فرقہ، پارٹی، علاقے، زبان اور قبیلے کی بنیاد پر انتشار دور حاضر کا بہت بڑا المیہ ہے۔ اس کا علاج ہر سطح پر شریعت کا مکمل نفاذ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4019