ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”تم بھلی بات کا حکم دو، اور بری بات سے منع کرو، اس سے پہلے کہ تم دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4004]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16349، ومصباح الزجاجة: 1408)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/159) (حسن)» (سند میں عمر بن عثمان مستور، اور عاصم بن عمر مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، نیز ابن حبان نے تصحیح کی ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 383)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عاصم بن عمر بن عثمان: مجھول (تقريب: 3070) و للحديث شواھد ضعيفة عند الطبراني (الأوسط: 1389) والخطيب (تاريخ بغداد 13/ 92) وغيرهما انوار الصحيفه، صفحه نمبر 519
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4004
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نیکی کا حکم دینے سے مراد مناسب طریقے سے نیکی کی ترغیب دینا ہے۔ حاکم اپنی رعایا کو، والد اپنی اولاد کو اور خاوند اپنی بیوی کو حکم دے سکتا ہے جس کی وہ تعمیل کرتے ہیں۔ دوسروں کو اس انداز سے حکم نہیں دیا جاسکتا۔
(2) برائی سے منع کرنے کی طاقت ہو تو ہاتھ سے منع کرنا (جیسے حاکم، والدین اور خاوند وغیرہ) ورنہ زبان سے سمجھنا ضروری ہے (جیسے عالم عوام کو سمجھاتا ہے) اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو گناہ سے دلی نفرت ضروری ہے۔
(3) گناہوں کا ارتکاب دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بن جاتا ہے لہٰذا توبہ کرنی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4004