ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا اور عنقریب پھر اجنبی ہو جائے گا، تو ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3986]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3986
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) غریب اجنبی اور بے وطن کو کہتے ہیں۔ شروع میں اسلام کی یہ کیفیت تھی کہ اسے کوئی جانتا نہ تھا۔ معاشرہ اسے قبول کرنے پر تیار نہ تھا۔ آہستہ آہستہ لوگ اسے سمجھتے اور قبول کرتے گئے حتی کہ ہر طرف اسلام کا بول بالا ہوگیا اور کفر و شرک ختم ہوگیا۔
(2) خلفائے راشدین کے دور کے بعد اسلام میں بدعات کا ظہور ہوا، بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے غیر مسلموں کے رسم ورواج اور خیالات اپنالیے۔ اس طرح اصل اسلام چند لوگوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اکثریت نے خود ساختہ رسم ورواج اور غلط عقائد واعمال ہی کو صحیح اسلام سمجھ لیا۔
(3) جن اجنبیوں کو مبارکباد دی گئی ہے ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو بدعات کی کثرت میں سنت پر عمل پیرا ہیں، غلط عقائد مشہور ہونے پر صحیح عقیدے پر قائم رہیں اور اخلاقی انحطاط کے دور میں صحیح اسلامی اخلاق کو اختیار کریں۔
(4) حق وباطل کا دارومدار کسی نام کو اختیار کرنے پر نہیں بلکہ قرآن وحدیث کی موافقت اور مخالفت پر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3986
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 159
´اسلام کا وصف` «. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ فَطُوبَى للغرباء» . رَوَاهُ مُسلم . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام شروع ہوا غریب اور آئندہ چل کر بھی ایسا ہی ہو جائے گا جیسا کہ شروع ہوا تھا پس غریبوں کے لیے خوش خبری ہو۔“ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 159]
تخریج الحدیث: [صحيح مسلم 232؍145]
فقہ الحدیث: ➊ ہر وقت حق پر ڈٹے رہنا چاہئیے اگرچہ باقی ساری دنیا بھی حق کے مخالف ہو جائے۔ ➋ دین اسلام اور حق کے مخالفین کی کثرت سے کبھی نہیں گھبرانا چاہیے، کیونکہ نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بعد والے دور کے علاوہ دنیا میں ہمیشہ اہل حق کی تعداد تھوڑی رہے گی۔ ➌ جن لوگوں کو اس حدیث میں «غرباء»(اجنبی) کہا گیا ہے، ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے: «ناس صالحون قليل فى ناس سوء كثير، من يعصيهم أكثر ممن يطيعهم .» ”بہت زیادہ برے لوگوں میں (رہنے والے) تھوڑے سے نیک لوگ ہیں، ان کی اطاعت کرنے والوں کے مقابلے میں نافرمانی کرنے والے زیادہ ہوں گے۔“[كتاب الزهد للامام عبدالله بن المبارك: 775 و سنده حسن] ◄ معلوم ہوا کہ غرباء سے وہ صحیح العقیدہ متبعین کتاب و سنت مراد ہیں جن کی مخالفت کرنے والے اکثریت میں ہوتے ہیں، اس سے کوئی خاص پارٹی یا جماعت مراد نہیں ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 372
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسلام کا آغاز غربت (اجنبیت) کی حالت میں ہوا اور یقیناً (آخر میں) اجنبی بن کر رہ جائے گا۔ تو اجنبی بن کر رہ جانے والوں کے لیے مسرّت و شادمانی ہو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:372]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) غَرِيْبٌ: غربت سے ماخوذ ہے، غریب اجنبی، پردیسی کو کہتے ہیں، جس کی دوسرے لوگوں کے ساتھ جان پہچان نہیں ہوتی، اور وہ لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے، اور غریب کی جمع غرباء ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرؓ کو فرمایا تھا «كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ»”کہ دنیا میں پردیسی اور اجنبی بن کر رہ۔ “(2) طُوبَى: فرحت و مسرت آنکھوں کی ٹھنڈک، بہتر انجام، قابل رشک حالت۔ فوائد ومسائل: اسلام کا آغاز اجنبیت اور غربت میں ہوا، لوگ اس سے مانوس نہیں تھے، اس کی طرف ان کی توجہ اور اہتمام نہ تھا، اس نے آہستہ آہستہ اپنے قد م پھیلائے (جمائے) اور لوگوں میں مقبول ومانوس بنا۔ اور آہستہ اہستہ غربت واجنبیت کی یہ حالت لوٹ کر آئے گی۔ لوگ اس کی تعلیمات وہدایات سے دور ہٹتے جائیں گے اور وہ لوگوں میں غیر مانوس اور مقبول ہوتا جائے گا، اس پر عمل کرنے والے لوگ دن بدن کم ہوتے جائیں گے، اور آخرت میں سرفرازی اور سعادت کے حقدار یہی ہوں گے۔ آج مادیت اور مغربیت کے غلبہ واستیلاء کی صورت میں اس پیش گوئی کے ابتدائی آثار رونما ہوچکے ہیں، دن بدن عملی طور پر اسلامی معاشرت، اسلامی تمدن وثقافت اور اسلامی روایات دم توڑ رہی ہیں اور لوگ عملا دین سے دور ہورہے ہیں۔