عبدالرحمٰن بن عبدرب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچا، وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے، اور لوگ ان کے پاس جمع تھے، تو میں نے ان کو کہتے سنا: اس دوران کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، آپ نے ایک جگہ قیام کیا، تو ہم میں سے کوئی خیمہ لگا رہا تھا، کوئی تیر چلا رہا تھا، اور کوئی اپنے جانور چرانے لے گیا، اتنے میں ایک منادی نے آواز لگائی کہ لوگو! نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، تو ہم نماز کے لیے جمع ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہمیں خطبہ دیا، اور فرمایا: ”مجھ سے پہلے جتنے بھی نبی گزرے ہیں ان پر ضروری تھا کہ وہ اپنی امت کی ان باتوں کی طرف رہنمائی کریں جن کو وہ ان کے لیے بہتر جانتے ہوں، اور انہیں ان چیزوں سے ڈرائیں جن کو وہ ان کے لیے بری جانتے ہوں، اور تمہاری اس امت کی سلامتی اس کے شروع حصے میں ہے، اور اس کے اخیر حصے کو بلا و مصیبت لاحق ہو گی، اور ایسے امور ہوں گے جن کو تم برا جانو گے، پھر ایسے فتنے آئیں گے کہ ایک کے سامنے دوسرا ہلکا محسوس ہو گا، مومن کہے گا: اس فتنے میں میری تباہی ہے، پھر وہ فتنہ ختم ہو جائے گا، اور دوسرا فتنہ آئے گا، مومن کہے گا: اس میں میری تباہی ہے پھر وہ بھی ختم ہو جائے گا، تو جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے تو وہ کوشش کرے کہ اس کی موت اس حالت میں آئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے ساتھ کریں، اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے، اور اس کو اپنی قسم کا ہاتھ دے کر دل سے سچا عہد کرے تو اب جہاں تک ہو سکے اس کی اطاعت کرے، اگر کوئی دوسرا امام آ کر اس سے لڑنے جھگڑنے لگے (اور اپنے سے بیعت کرنے کو کہے) تو اس دوسرے امام کی گردن مار دے“۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے (یہ سن کر) اپنا سر لوگوں میں سے نکال کر کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے کانوں کی جانب اشارہ کر کے کہا: میرے کانوں نے اسے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3956]
لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على ما يعلمه خيرا لهم وينذرهم ما يعلمه شرا لهم أمتكم هذه جعلت عافيتها في أولها آخرها سيصيبهم بلاء وأمور ينكرونها تجيء فتن فيدقق بعضها لبعض فتجيء الفتنة فيقول المؤمن هذه مهلكتي
لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على خير ما يعلمه لهم وينذرهم شر ما يعلمه لهم أمتكم هذه جعل عافيتها في أولها سيصيب آخرها بلاء وأمور تنكرونها وتجيء فتنة فيرقق بعضها بعضا وتجيء الفتنة فيقول المؤمن هذه مهلكتي ثم تنكشف
لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على ما يعلمه خيرا لهم وينذرهم ما يعلمه شرا لهم أمتكم هذه جعلت عافيتها في أولها آخرهم يصيبهم بلاء وأمور ينكرونها ثم تجيء فتن يرقق بعضها بعضا فيقول المؤمن هذه مهلكتي ثم تنكشف ثم تجيء فتنة
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3956
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نبیﷺ کی جدو جہد کی بنیاد خلوص اور انسانوں کی خیر خواہی پر ہوتی ہے۔ علماء کو بھی اسی بنیاد پر محنت کرنی چاہیے۔
(2) صحابہ وتابعین مخلص مومن تھے ان سے اختلاف کرنے والے غلطی پر تھے۔
(3) مومن فتنوں کو پہچانتا ہے اس لیے انھیں قبول نہیں کرتا اگرچہ بے انتہا مشکلات آجائیں۔
(4) فتنوں کے دور میں ایمان کی حفاظت کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے۔
(5) معاملات میں صحیح اور غلط کا معیار یہ ہے کہ دوسروں سے ایسا سلوک کرو جیسا تم اپنے آپ سے کیا جانا پسند کرتے ہو مثلاً: جس طرح ایک شخص یہ پسند کرتا ہے کہ جب اسے مشورے کی ضرورت پڑے تو صحیح مشورہ دیا جائے اسی طرح اسے چاہیے کہ دوسروں کو صحیح مشورہ دے۔ جس طرح وہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی دھوکہ نہ دے اسی طرح اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ نہ دے۔
(6) اسلامی سلطنت میں ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے شخص کا خلا فت کے استحقاق کا دعوی ٰ لے کر کھڑا ہونا مسلمانوں میں انتشار وافتراق کا باعث ہے۔
(7) پہلے خلیفہ کے بعد مسلمانوں کے اہل حل وعقد دوسرا خلیفہ منتخب کریں گے۔ کسی کو خود بخود خلافت کا دعویٰ لے کر کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔
(8) موجود خلیفہ غلطی کرے تو اسے متنبہ کرنا ضروری ہے، جیسے امام مالک اور امام احمد بے حنبل رحمۃ اللہ علیہما وغیرہ نے حکام کی غلطیوں پر سخت تنقید کی لیکن یہ مطالبہ کبھی نہیں کیا کہ حکومت ہمیں دے دو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3956
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4196
´جو کسی امام سے بیعت کر لے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیدے اور اخلاص کا عہد کرے تو اس پر کیا لازم ہے۔` عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس گیا، وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے، لوگ ان کے پاس اکٹھا تھے، میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا: اسی دوران جب کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، تو ہم میں سے بعض لوگ خیمہ لگانے لگے، بعض نے تیر اندازی شروع کی، بعض جانور چرانے لگے، اتنے میں نبی اکرم صلی ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4196]
اردو حاشہ: (1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت یوں بنتی ہے کہ جو شخص کسی امیر اور امام برحق کی بیعت کرلیتا ہے اور اسے اپنا تمام تر خلوص و محبت پیش کر دیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ شخص حسب استطاعت وفا کے تقاضے پورے کرے اور اس پر جو اطاعت امیر لازم ہے اسے پورا کرے۔ اگر کوئی دوسرا شخص آکر پہلے امیر کی خلافت چھیننا چاہے تو وہ پہلے امیر کے ساتھ مل کر دوسرے سے لڑائی کرے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے انبیاء کے ذمے ان فرائض کی وضاحت بھی ہوتی ہے جو اﷲ تعالیٰ نے ان پر عائد کیے تھے یعنی اخلاص کے ساتھ انھیں خیر وشر کے متعلق خبردار کرنا، انھیں ان کی دنیوی واخروی بھلائیوں کی رہنمائی کرنا اور انھیں ان کے دینی ودنیوی شر اور نقصان سے ڈرانا اور اس پر متنبہ کرنا۔ (3) موت تک ایمان باﷲ اور ایمان بالآخرت پر پکا رہنا، نیز لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا، آگ سے نجات اور جنت میں داخلے کا سبب ہے۔ (4) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ویسا سلوک اور برتاؤ کرے جیسا وہ اپنے لیے لوگوں سے چاہتا ہے۔ حدیث اس بات پر صریح نص ہے۔ نبی ﷺ کے ان کلمات کو آپ کے جوامع الکلم میں سے شمار کیا گیا ہے۔ یہ شریعت مطہرہ کا اہم قاعدہ ہے۔ ہر مسلمان مرد اور عورت کو اس کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔ (5)”ابتدائی لوگوں میں“ معلوم ہوا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم افضل امت تھے۔ ان کا دین محفوظ تھا۔ دنیوی فتنوں کا بہت کم شکار ہوئے۔ (6)”ہلکے معلوم ہوں گے“ یعنی بعد والا فتنہ پہلے فتنے سے بڑا ہوگا، لہٰذا پہلا فتنہ دوسرے کے مقابلے میں ہلکا محسوس ہوگا، حالانکہ وہ حقیقتاََ بہت بڑا ہوگا جیسا کہ حدیث ہی میں تفصیل مذکور ہے۔ (7)”گردن ماردو“ اسلام میں بغاوت بہت بڑا جرم ہے۔ لوگ ایک امیر پر متفق اور مطمئن ہوں تو اس کے خلاف افرا تفری پیدا کرنے والا امن وامان کو درہم برہم کرنے والا بڑا مجرم ہے۔ اس کی سزا قتل ہے۔ گویا بغاوت ارتداد کے جرم کے برابر ہے۔ گزشتہ صفحات میں اس کی تفصیل بیان ہوچکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4196
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4776
عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ بیان کرتے ہیں، میں مسجد میں پہنچا تو وہاں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے گرد جمع تھے، میں بھی لوگوں میں آ کر ان کے قریب بیٹھ گیا، تو انہوں (عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ) نے بتایا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، تو ہم نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا، تو ہم میں سے کچھ اپنا خیمہ درست کرنے لگے، اور ہم سے کچھ تیر اندازی میں مشغول ہو گئے اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4776]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) يُصْلِحُ خِبَاءَهُ: اپنے خیمہ کو درست کرنے لگا۔ (2) يَنْتَضِلُ: تیراندازی کرنے لگا۔ (3) جَشَرِ: ان مویشیوں کو کہتے ہیں، جو چراگاہ میں چرتے ہیں اور وہیں رات گزارتے ہیں۔ (4) الصَّلَاةَ جَامِعَةً: سلف نے اگر کسی اہم کام کے لیے لوگوں کو جمع کرنا ہوتا، تو وہ ان کلمات کے ذریعہ لوگوں کو بلاتے، لیکن اسے مراد صبح کی اذان اور اقامت کے درمیان تثویب نہیں، دوبارہ حي علي الصلوة، حي الصلوة، کہنے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ نماز کے لیے تثویب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے، جبکہ دینی امور میں صلاح ومشورہ کرنے کے لیے الصَّلَاةَ جَامِعَةً کے ذریعہ لوگوں کو اکھٹا کرنا ثابت ہے، کیونکہ جن لوگوں نے نماز کے لیے آنا ہے، ان کے لیے آذان کافی ہے، جنہوں نے نہیں آنا، تشہد کے کلمات یا آج کل الصلوة والسلام عليك يا رسول الله کے کلمات، ان کو مسجد میں نہیں لاسکتے، اس لیے یہ کلمات لاحاصل ہیں۔ (5) جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا: آپ کی پیش گوئی کے مطابق امت کا ابتدائی طبقہ دین پر قائم رہا اور اس کو کوئی چیز دین پر عمل پیرا ہونے سے نہ روک سکی، یہی معنی ہے کہ امت کی عافیت وسلامتی اس کے پہلے طبقہ میں ہے، اس لیے پہلے تین قرون کو خیر القرون قرار دیا گیا، کیونکہ مجموعی طور پر وہ دین پر قائم رہے۔ (6) يُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا: بعد والے فتنہ کے مقابلہ میں پہلا فتنہ ہلکا اور کم نقصان دہ محسوس ہوتا تھا۔ (7) وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ: لوگوں سے وہ یہ رویہ اور طرز عمل اختیار کرے، جو ان سے اپنے لیے پسند کرتا ہے، یعنی جس طرح دوسروں سے ہمدردی اور خیرخواہی اور اچھے طرز عمل کا خواہاں ہے، اس طرح ان کے ساتھ، ہمدردی وخیر خواہی کا رویہ اختیار کرے، اگر آج ہمارا اس جامع نصیحت پر عمل ہوجائے، تو ہمارے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں، اور ہم بے شمار مشکلات ومصائب سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔ (8) فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ: بیعت کے لیے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا ہے اور دل کی گہرائی سے تسلیم کیا ہے۔ (9) فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ: دوسرے خلیفہ کی گردن ماردو، اسے قتل کر دو۔ فوائد ومسائل: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ: کہ تمہارے بقول پہلے خلیفہ کے بعد خلافت کا مدعی قابل قتل ہے، تو پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بن چکے ہیں، تو پھر معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کیوں لڑ رہے ہیں، اس طرح اپنے لشکر اور حواریوں پر جو مال خرچ کر رہے ہیں، وہ ناجائز طریقہ سے مال کھانا ہے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے، یہ اس سائل کا دعویٰ ہے، حالانکہ حضرت معاویہ نے خلافت کا دعویٰ نہیں کیا، بلکہ قاتلین عثمان کو اپنے حوالہ کرنے کی استدعا کی تھی اور قاتلین عثمان کی سازشوں کے نتیجہ میں اپنا دفاع کرنے کے لیے جنگ لڑنی پڑی تھی، اس لیے وہ اپنے اجتہاد اور اپنی رائے کی روشنی میں اس لڑائی کو صحیح سمجھتے تھے اور اس کے لیے مال خرچ کرنا، وہ ناجائز طریقہ سے مال کھانا قرار نہیں دیا جا سکتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک خط لکھوا کر، ملک کے اکناف واطراف میں نشر کردیا تھا، جس میں لکھا، ہمارا اور اہل شام کا مقابلہ ہوا اور یہ کھلی حقیقت ہے، ہمارا رب ایک ہے، ہمارا نبی ایک ہے، اسلام کے بارے میں ہماری وحدت یکساں ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لانے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے میں، ہم ان سے بڑھ کر نہیں ہیں اور نہ وہ ہم پر اس میں فائق ہیں، ہمارا معاملہ یکساں ہے، مگر خون عثمان میں ہمارا اور ان کا اختلاف ہو گیا ہے اور ہم اس سے برئ الذمہ ہیں۔ (نہج البلاغۃج 2، ص114۔ مع حواشی امام عبدہ، بحوالہ رحماء بینھم ج4 ص183۔ یہی بات درۃ نجفیہ شرح نہج البلاغۃ ص 344 میں موجود ہے) ۔ اس لیے جب شاہ روم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملانے کی خواہش کی، کیونکہ ان کا اقتدار رومی سلطنت کے لیے خطرہ بن چکا تھا اور شامی فوجیں اس کی افواج کو مغلوب کر کے ذلیل کرچکی تھیں، تو وہ ایک بڑی فوج کے ساتھ ایک قریبی علاقہ میں آیا اور حضرت معاویہ کو تعاون کی پیش کش کی، تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے خط لکھا: اللہ کی قسم! اگر تو نہ رکا اور اے لعین، تو اگر اپنے ملک واپس نہ گیا، تو میں اور میرے چچا زاد دونوں آپس میں مل جائیں گے اور تجھے تیرے تمام قلمرو سے خارج کر دیں گے۔ (البدایۃ والنھایۃ ج 8 ص 119) ۔ اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے سائل کو حضرت معاویہ کی اطاعت کا حکم اس لیے دیا، کیونکہ 40ھ میں حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما میں صلح ہو گئی تھی اور دونوں نے فوجیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں واپس بلالی تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شام کا علاقہ حضرت معاویہ کے حوالہ کردیا تھا، (البدایۃ والنھایۃ، ج7، ص322۔ تاریخ طبری، ج، 6 ص 81، سن40ھ)