طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دور دراز کے دو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہ دونوں ایک ساتھ اسلام لائے تھے، ان میں ایک دوسرے کی نسبت بہت ہی محنتی تھا، تو محنتی نے جہاد کیا اور شہید ہو گیا، پھر دوسرا شخص اس کے ایک سال بعد تک زندہ رہا، اس کے بعد وہ بھی مر گیا، طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں، اتنے میں وہ دونوں شخص نظر آئے اور جنت کے اندر سے ایک شخص نکلا، اور اس شخص کو اندر جانے کی اجازت دی جس کا انتقال آخر میں ہوا تھا، پھر دوسری بار نکلا، اور اس کو اجازت دی جو شہید کر دیا گیا تھا، اس کے بعد اس شخص نے میرے پاس آ کر کہا: تم واپس چلے جاؤ، ابھی تمہارا وقت نہیں آیا، صبح اٹھ کر طلحہ رضی اللہ عنہ لوگوں سے خواب بیان کرنے لگے تو لوگوں نے بڑی حیرت ظاہر کی، پھر خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی، اور لوگوں نے یہ سارا قصہ اور واقعہ آپ سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کس بات پر تعجب ہے“؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! پہلا شخص نہایت عبادت گزار تھا، پھر وہ شہید بھی کر دیا گیا، اور یہ دوسرا اس سے پہلے جنت میں داخل کیا گیا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ اس کے بعد ایک سال مزید زندہ نہیں رہا؟“، لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور زندہ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال میں تو اس نے رمضان کا مہینہ پایا، روزے رکھے، اور نماز بھی پڑھی اور اتنے سجدے کئے، کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ تو ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اسی وجہ سے ان دونوں (کے درجوں) میں زمین و آسمان کے فاصلہ سے بھی زیادہ دوری ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3925]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5017، ومصباح الزجاجة: 1372)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/163) (صحیح)» (سند میں ابوسلمہ اور طلحہ کے مابین انقطاع ہے، لیکن دوسرے شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی عمل ضائع ہونے والا نہیں بشرطیکہ خلوص دل کے ساتھ اس کو راضی کرنے کے لیے کیا ہو، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تھوڑی عبادت کا درجہ بڑے عابد اور زاہد سے بڑھ جاتا ہے، خلوص اور محبت الہیٰ کے ساتھ تھوڑا عمل بھی سینکڑوں اعمال سے زیادہ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو سلمة بن عبد الرحمٰن بن عوف لم يسمع من أبيه و لا من طلحة بن عبيد اللّٰه،قاله الإمام يحيي بن معين (تاريخ ابن معين،رواية الدوري: 1103) و حديث أحمد (2/ 333 ح 8399 و سنده حسن) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 516
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3925
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بعض اوقات خواب سے وہی کچھ مراد ہوتا ہے جو خواب میں نظر آیا جیسے اس خواب کو صحابہ نے حقیقت پر محمول کیا اور اس کی تعبیر کچھ اور نہیں سمجھی۔ نبی ﷺ نے بھی ان کے اس فہم کی تائید فرمائی۔
(2) مومن کے لیے لمبی زندگی رحمت ہے جبکہ نیکیوں کی توفیق حاصل ہو۔
(3) طویل عرصہ نماز روزے کا ثواب شہادت کے ثواب سے زیادہ ہوسکتا ہے لیکن شہید کے لیے کچھ خاص انعامات ہیں جو دوسروں کو حاصل نہیں ہوتے۔
(4) اس حدیث میں ان دو صحابیوں کے جنتی ہونے کی بشارت ہے اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے لیے بھی جنت کی بشارت ہے ویسے بھی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں جنھیں اللہ کے رسول ﷺ نے نام لیکر جنت کی بشارت دی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3925
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ اعوان حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سلسله احاديث صحيحه 482
´ایک سال کی نمازوں اور روزوں کی بنا پر شہید پر فوقیت` «. . . - أليس قد صام بعده رمضان وصلى بعده ستة آلاف ركعة، وكذا وكذا ركعة لصلاة السنة؟ . . .» ”. . . سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قضاعہ قبیلے کی شاخ ”بلی“ کے دو آدمی تھے، ان میں ایک شہید ہو گیا اور دوسرا اس سے ایک سال بعد فوت ہوا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے خواب آیا کہ جنت کا دروازہ کھولا گیا اور بعد میں فوت ہونے والا، شہید ہونے والے سے پہلے جنت میں داخل ہوا، مجھے بڑا تعجب ہوا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے اس خواب کا تذکرہ کیا اور بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس نے (ایک سال پہلے شہید ہونے والے کے بعد) رمضان کے روزے نہیں رکھے اور ایک سال کی (فرض نمازوں کی) چھ ہزار اور اس سے زائد اتنی اتنی نفل رکعتیں ادا نہیں کیں؟“ . . .“[سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة: 482]
� فوائد و مسائل اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کی خاطر جام شہادت نوش کرنا عظمتوں والا عمل ہے، جس سے کسی صورت بےرخی اختیار نہیں کی جا سکتی اس حدیث کا مفہوم قطعاً یہ نہیں ہے کہ جہاد کو ترک کر دیا جائے، بلکہ اس حدیث سے نماز اور روزوں کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ قابل غور بات ہے کہ ایک آدمی شہید ہوا اور دوسرا اس کی شہادت سے ایک سال بعد طبعی موت مر کر جنت میں پہلے پہنچ گیا، اس کی وجہ ایک رمضان کے روزے اور ایک سال کی فرضی و نفلی نمازیں ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اس میں جس قدر ممکن ہو سکے صوم و صلاۃ اور دیگر اعمال صالحہ سرانجام دیئے جائیں اور جب جہاد کی ضرورت پڑے تو مال و جان کو خطرے میں ڈال دینے سے گریز نہ کیا جائے۔ سلسلہ احادیث صحیحہ میں الشیخ البانی رحمہ اللہ ابن حبان سے الفاظ لائے ہیں۔ ”اور ایک سال کی (فرض نمازون کی) چھ ہزار اور اس سے زائد اتنی اتنی نفل رکعتیں ادا نہیں کیں۔“ اسلامی مہینہ کبھی (29) دنوں کا ہوتا ہے اور کبھی (30) دنوں کا، اگر سال کے چھ ماہ (29، 29) دنوں کے اور چھ ماہ (30، 30) دنوں کے فرض کر لیے جائیں تو سال کے کل (354) دن بنتے ہیں، جبکہ ایک دن میں پانچ فرض نمازوں کی رکعتوں کی تعداد (17) ہے، اس اعتبار سے ایک سال میں فرض نمازوں کی کل (6018) رکعتیں بنتی ہیں، لیکن مہینوں کے دنوں میں (29) یا (30) کی وجہ سے فرق آ سکتا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (6000) رکعتوں کا ذکر کیا ہے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 482