ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ذریعہ دعا کیا کرتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار وعذاب النار ومن فتنة القبر وعذاب القبر ومن شر فتنة الغنى وشر فتنة الفقر ومن شر فتنة المسيح الدجال اللهم اغسل خطاياي بماء الثلج والبرد ونق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس وباعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم إني أعوذ بك من الكسل والهرم والمأثم والمغرم»”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے فتنہ اور جہنم کے عذاب سے، اور قبر کے فتنہ اور اس کے عذاب سے، اور مالداری و فقیری کے فتنے کی برائی سے، اور مسیح الدجال کے فتنے کی برائی سے، اے اللہ! میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو ڈال، اور میرے دل کو گناہوں سے پاک و صاف کر دے، جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے پاک و صاف کیا ہے، اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری کر دے جس طرح تو نے پورب اور پچھم کے درمیان دوری کی ہے، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں سستی، بڑھاپے، گناہ اور قرض سے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3838]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «حدیث أبي بکر بن أبي شیبة أخرجہ: صحیح مسلم/الدعوات 14 (589)، تحفة الأشرف: 16988، وحدیث علی بن محمد قد أخرجہ: صحیح البخاری/ الدعوات 39 (6275)، صحیح مسلم/الذکر 14 (589)، (تحفة الأشراف: 17260)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 153 (580)، سنن الترمذی/الدعوات 77 (3495)، سنن النسائی/الاستعاذة 16 (5468)، مسند احمد (6/57، 207) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس بڑھاپے سے پناہ مانگی جس میں آدمی معذور اور بے عقل ہو جاتا ہے، اور مالداری کے فتنے یہ ہیں: بخل،حرص، زکاۃ نہ دینا، سود کھانا، اللہ تعالی سے غافل ہو جانا، مستحقوں کی خبر گیری نہ کرنا وغیرہ وغیرہ، فقیری کا فتنہ یہ ہے کہ مال کے لالچ میں دین کو کھو بیٹھنا، کفار اور فساق کی صحبت اختیار کرنا۔
اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار من عذاب النار أعوذ بك من فتنة القبر أعوذ بك من عذاب القبر أعوذ بك من فتنة الغنى أعوذ بك من فتنة الفقر أعوذ بك من فتنة المسيح الدجال
اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار عذاب النار فتنة القبر عذاب القبر شر فتنة الغنى شر فتنة الفقر اللهم إني أعوذ بك من شر فتنة المسيح الدجال اللهم اغسل قلبي بماء الثلج والبرد نق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس باعد بين
اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر أعوذ بك من فتنة المسيح الدجال أعوذ بك من فتنة المحيا والممات اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم ما أكثر ما تستعيذ من المغرم يا رسول الله فقال إن الرجل إذا غرم حدث فكذب ووعد فأخلف
اللهم فإني أعوذ بك من فتنة النار عذاب النار فتنة القبر عذاب القبر من شر فتنة الغنى من شر فتنة الفقر أعوذ بك من شر فتنة المسيح الدجال اللهم اغسل خطاياي بماء الثلج والبرد نق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس باعد
اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار عذاب النار فتنة القبر عذاب القبر من شر فتنة الغنى من شر فتنة الفقر من شر فتنة المسيح الدجال اللهم اغسل خطاياي بماء الثلج والبرد أنق قلبي من الخطايا كما أنقيت الثوب الأبيض من الدنس باعد بيني وبين
اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر أعوذ بك من فتنة المسيح الدجال أعوذ بك من فتنة المحيا والممات اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم ما أكثر ما تستعيذ من المغرم فقال إن الرجل إذا غرم حدث فكذب ووعد فأخلف
اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر فتنة النار فتنة القبر عذاب القبر شر فتنة المسيح الدجال شر فتنة الغنى شر فتنة الفقر اللهم اغسل خطاياي بماء الثلج والبرد نق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس اللهم إني أعوذ بك من الكسل والعجز
اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار عذاب النار فتنة القبر عذاب القبر شر فتنة المسيح الدجال شر فتنة الفقر شر فتنة الغنى اللهم اغسل خطاياي بماء الثلج والبرد أنق قلبي من الخطايا كما أنقيت الثوب الأبيض من الدنس باعد بيني وبين خطاياي كما
اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر أعوذ بك من فتنة المسيح الدجال أعوذ بك من فتنة المحيا والممات اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم ما أكثر ما تستعيذ من المغرم فقال إن الرجل إذا غرم حدث فكذب ووعد فأخلف
اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار عذاب النار من فتنة القبر عذاب القبر من شر فتنة الغنى شر فتنة الفقر من شر فتنة المسيح الدجال اللهم اغسل خطاياي بماء الثلج والبرد نق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس باعد بيني وبين خطاي
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3838
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) جہنم کی آزمائش اور فقر کی آزمائش سے مراد وہ گناہ ہیں جو جہنم میں لے جاتے ہیں یا عذاب قبر کا باعث بنتے ہیں۔
(2) دولت کا فتنہ یہ ہے کہ انسان مغرور ہو کر ظلم کرنے لگے یا حق کو تسلیم کرنے سے انکار کرے یا مال کو گناہ کے کاموں میں خرچ کرے۔ ایسا شخص اس آزمائش میں ناکام ہوا جو اللہ نے دولت دے کر کی۔
(3) مفلسی کا فتنہ او ر آزمائش یہ ہے کہ انسان روری کمانے کےحرام طریقے اختیار کرے یا دل میں اللہ پر ناراض ہو یا زبان سے اللہ کا شکوہ کرے۔ ایسا شخص مفلسی کے امتحان میں ناکام ہے۔
(4) مسیح دجال ایک خاص شخص ہے جو قیابت کے قریب ظاہر ہوگا اور خدائی کا دعویٰ کرے گا۔ جو شخص اس کا ساتھ دے گا اسے دنیا کے مال کی فراوانی اور راحت حاصل ہوگی، جو اس کے دعوے کو سچ ماننے سے انکار کرے گا اس پر مصیبتیں آئیں گی اور مال و دولت سے محروم ہو جائے گا۔ بہت سےلوگ دولت کے لالچ میں یا مفلسی کے ڈر سے اس کے ساتھی بن جائیں گے اور ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ بہت سے لوگ اس کے عجیب و غریب شعبدے دیکھ کر اس کے دعوے کو سچ مان لیں گے، اس لیے نبی ﷺ نے تفصیل سے اس کے بارے میں بیان کیا ہے تا کہ مومن اپنا ایمان محفوظ رکھ سکیں۔ آخر کار وہ سچے مسیح، یعنی حضرت عیسیٰ ؑ کے ہاتھوں فلسطین کے ملک میں لد کے مقام پر قتل ہوگا۔
(5) غلطیوں اور گناہوں کا تعلق جہنم کی آگ سے ہے، اس لیے انہیں آگ سے تشبیہ دے کر پانی اور برف سے دھونے کی دعا کی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دل کو گناہوں سے پاک صاف کر کے اطمینان اور سکینت کی ٹھنڈک عطا فرمادے۔
(6) سُستی انسان کو بہت سی نیکیوں اور دنیا و آخرت کے فوائد سے محروم کر دیتی ہے۔ مومن کو نیکی کے معاملے میں ہوشیار ہونا چاہیے۔
(7) انتہائی بڑھاپے سےعمر کا وہ حصہ مراد ہے جب انسان دوسروں کا محتاج ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کی ہر قوت کمزور ہو جاتی ہے، اس لیے وہ پہلے کی طرح نیکیاں نہیں کر سکتا۔
(8) تاوان سےمراد کسی ایسی ادائیگی کا لازم ہونا ہے جو ناگوار اور مشکل ہو، مثلاً: غیر ارادی طور پر کسی کا نقصان ہو جائے اور وہ نقصان پورا کرنا پڑے یا غیرارادی طور پر قتل ہو جائے جس کا خون بہا دینا پڑے یا کسی جرم کا ارتکاب ہو جائے اور اس کا جر مانہ ادا کرنا پڑے۔ دعا میں ایسی تمام صورتوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3838
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 880
´نماز میں دعا مانگنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یہ دعا کرتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم» یعنی ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح (کانے) دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے، اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں گناہ اور قرض سے“ تو ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) آپ قرض سے کس قدر پناہ مانگتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی جب قرض دار ہوتا ہے، بات کرتا ہے، تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے، تو اس کے خلاف کرتا ہے۔“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 880]
880۔ اردو حاشیہ: ➊ «دجال» کے معنی ہیں ”انتہائی فریبی“ اور «مسيح» سے مراد «ممسوح العين» ہے، یعنی ایک آنکھ سے کانا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو مسیح کہا جاتا ہے۔ وہ بمعنی «ماسح» ہے یعنی ان کے ہاتھ پھیرنے سے مریضوں کو شفا مل جاتی تھی یا یہود کے ہاں اصطلاحاً ہر اس شخص کو مسیح کہتے تھے۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصلاح خلق کے لئے مامور ہوتا تھا۔ ➋ ”زندگی کے فتنے سے“ مراد یہ ہے کہ انسان دنیا کے بکھیڑوں میں الجھ کر رہ جائے اور دین کے تقاضے پورے نہ کر سکے۔ ➌ ”موت کے فتنے سے“ مراد یہ ہے کہ آخر وقت میں کلمہ توحید سے محروم رہ جائے یا کوئی اور نامناسب کلمہ یا کام کر بیٹھے۔ «اعاذنا الله» ➍ نماز اللہ کے قرب کا موقع ہوتا ہے، اس لئے انسان کو اپنی دنیا اور آخرت کی حاجت طلب کرنے کا حریص ہونا چاہیے (بالخصوص تشہد کے آخر اور سجدوں میں)۔ ➎ قرض سے انسان کو حتی الامکان بچنا چاہیے، اگر ناگزیر ہو تو اپنے وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اتنا قرض لے کہ وہ حسب وعدہ ادا کر سکے تاکہ جھوٹ بولنے کی یا وعدہ خلافی کی نوبت نہ آئے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 880
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1543
´(بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ساتھ دعا مانگتے: «اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار، وعذاب النار، ومن شر الغنى، والفقر»”اے اللہ! میں جہنم کے فتنے جہنم کے عذاب اور دولت مندی و فقر کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1543]
1543. اردو حاشیہ: ➊ «فتنة النار» سےمراد ایسے عمل ہیں جو دخول جہنم کا باعث بنیں۔ یا جہنہم کے داروغوں کے وہ سوال مراد ہیں جو وہ بطور ز جرو تو بیخ کریں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿كُلَّما أُلقِىَ فيها فَوجٌ سَأَلَهُم خَزَنَتُها أَلَم يَأتِكُم نَذيرٌ ﴾[الملك:8] ”جب کبھی اس میں کوئی گروه ڈالا جائے گا اس سے جہنم کے داروغے پوچھیں گے: کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے واﻻ کوئی نہیں آیا تھا؟“ اور ”عذاب النار‘ ‘یہ کہ انسان جہنمی بن کر عذاب پائے۔واللہ اعلم۔ ➋ ”مالدار کا شر“ یہ ہے کہ انسان مالدار ہو کر فخر و عصیان اور ظلم کامرتکب ہونے لگے یا حرام کمائے اور حرام میں خرچ کرنے لگے۔ ➌ اور ”فقیری کا شر“ یہ ہے انسان اغنیاء پر حسد کرنے لگے یا اللہ کی تقسیم پر راضی نہ رہے۔ یا حق کے بغیر ان کے مال میں طمع کرنے لگے‘ یا ان کے سامنے اپنی عزت کو داؤ پر لگا دے یا اسلام ہی سے روگردان ہو جائے۔ وغیرہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1543
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1310
´ایک اور طرح کے تعوذ کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا مانگتے: «اللہم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات اللہم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم»”اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، اور پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے، اے اللہ! میں تجھ سے گناہ اور قرض سے پناہ چاہتا ہوں“ تو کہنے والے نے آپ سے کہا: آپ قرض سے اتنا زیادہ کیوں پناہ مانگتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی جب مقروض ہوتا ہے تو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اور وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1310]
1310۔ اردو حاشیہ: ➊ ”مسیح دجال“ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے قبل ایک شخص دنیا پر غلبہ حال کر لے گا۔ وہ دنیوی طور پر ترقی یافتہ ہو گا اور لوگوں کو اپنے سائنسی و دیگر کمالات سے مرعوب کرے گا۔ دینی طور پر وہ رب ہونے کا دعویٰ کرے گا اور سب لوگوں کو اپنا کلمہ پڑھوانے کی کوشش کرے گا۔ سخت دغا باز اور دھوکے باز ہو گا۔ یہ دجال کے معنیٰ ہیں۔ مسیح اسے اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ ممسوح العین (کانا) ہو گا۔ یہودی اسے اپنا نجات دہندہ قرار دیں گے۔ وہ اسی کے انتظار میں ہیں، ورنہ حقیقی مسیح تو کب کا آچکا جسے انہوں نے نہ مانا۔ اس جعلی مسیح کو مانیں گے جو ان میں سے ہو گا۔ دونوں آنکھوں سے عیب ناک ہو گا۔ یہودیوں نے حقیقی مسیح عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینے کی ناپاک جسارت کی تواللہ تعالیٰ نے انہیں یہودیوں کے شر سے بچانے کے لیے زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور قیامت کے نزدیک اللہ تعالیٰ انہیں پھر زمین پر اتارے گا، وہ اس جعلی دھوکے باز مسیح کو قتل کر کے اس کی مسیحیت کا بھانڈا پھوڑ دیں گے اور دنیا کو اس کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں گے۔ اس کے قتل سے یہودیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور عیسائیت کو عیسیٰ علیہ السلام اپنی زبانی اور اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیں گے۔ عیسائیت کے نشان صلیب اور خنزیر کا نام و نشان مٹائیں گے۔ خالص اسلام کا بول بالا ہو گا۔ ان شاء اللہ۔ ➋ ”زندگی کا فتنہ“ یہ ہے کہ انسان زندگی میں رب تعالیٰ کا نافرمان رہے۔ دین حق سے برگشتہ رہے۔ زندگی کی خوش نمائیوں میں کھو کر حق تعالیٰ سے غافل رہے۔ اور ”موت کا فتنہ“ یہ ہے کہ مرتے وقت شیطان گمراہ کر دے۔ کلمۂ توحید نصیب نہ ہو۔ بری حالت پر موت آئے۔ العیاذ باللہ۔ ممکن ہے اس عذاب قبر، یعنی سوال و جواب میں ناکامی مراد ہو۔ يا مُقَلِّبَ القلوبِ ثَبِّتْ قلوبَنا على دينِكَ۔ ➌ اپنے وسائل سے بڑھ کر قرض اٹھانا کہ بعد میں اس ادا نہ کیا جا سکے، درست نہیں ہے۔ ➍ وعدہ خلافی کرنا اور جھوٹ بولنا حرام ہے۔ ➎ مذکورہ اشیاء سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1310
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5469
´آسودہ اور سیراب نہ ہونے والے نفس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الأربع من علم لا ينفع ومن قلب لا يخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعا لا يسمع»”اللہ! میں چار چیزوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں: ایسے علم سے جو نفع بخش اور مفید نہ ہو، ایسے دل سے جس میں (اللہ کا) ڈر نہ ہو، ایسے نفس سے جو سیراب نہ ہو، اور ایسی دعا سے جو (اللہ کے یہاں) قبول نہ ہو۔“[سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5469]
اردو حاشہ: فائدہ: تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: 5444۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5469
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5480
´دنیا کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔` مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ سعد رضی اللہ عنہ انہیں دعا کے یہ کلمات سکھاتے اور انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے «اللہم إني أعوذ بك من البخل وأعوذ بك من الجبن وأعوذ بك من أن أرد إلى أرذل العمر وأعوذ بك من فتنة الدنيا وعذاب القبر»”اے اللہ! میں بخل و کنجوسی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بزدلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں لاچاری و مجبوری کی عمر کو پہنچوں، دنیا کے فتنے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگت [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5480]
اردو حاشہ: دنیا کے فتنے سے مراد یہ ہے کہ میں دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر آخرت سے غافل ہو جاؤں یا وہ تکالیف شاقہ مراد ہیں جو انسانی بس سے باہر ہوں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5480
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3495
´باب:۔۔۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ذریعہ دعا فرمایا کرتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار وعذاب النار وفتنة القبر وعذاب القبر ومن شر فتنة الغنى ومن شر فتنة الفقر ومن شر فتنة المسيح الدجال اللهم اغسل خطاياي بماء الثلج والبرد وأنق قلبي من الخطايا كما أنقيت الثوب الأبيض من الدنس وباعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم إني أعوذ بك من الكسل والهرم والمأثم والمغرم»”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے فتنے سے، (جہنم میں لے جانے والے اعمال سے) جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے، اور قبر کے فتنہ سے، (من۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3495]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے فتنے سے، (جہنم میں لے جانے والے اعمال سے) جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے، اور قبر کے فتنہ سے، (منکر نکیرکے سوال سے جس کا جواب نہ پڑے) مالداری کے فتنے کے شر سے (تکبر اور کسب حرام سے) اور محتاجی کے فتنے کے شر سے، (حسداور طمع سے) اور مسیح دجال کے شر سے، اے اللہ! ہمارے گناہوں کو دھو دے برف اور اولوں کے پانی سے، اور میرے دل کو گناہوں سے صاف کر دے جس طرح کہ تو سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کرتا ہے، اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری پیدا کر دے جتنی دوری تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان پیدا کر دی ہے، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کاہلی سے، بڑھاپے سے، گناہ سے اور تاوان و قرض کے بوجھ سے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3495
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:246
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قرضہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ ہرممکن طریقے سے اس سے بچتے رہنا چاہیے، لیکن مجبوری کی وجہ سے قرضہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر قرض لیا جائے تو قرض ادا کرنے کی نیت بھی ہو، اللہ تعالیٰ قرضہ ا تار ہی دیتا ہے، اور انسان کو ہمیشہ یہ دعا بھی کرتے رہنا چا ہے، ا «للـهـم اني اعوذ بك من غلبة الدين» ۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 246
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1323
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی نماز میں دجال کے امتحان سے پناہ مانگتے سنا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1323]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: دجل جھوٹ اور فریب کو کہتے ہیں چونکہ وہ بہت بڑا جھوٹا ہو گا اس لیے اس کو یہ نام دیا گیا دجل کا معنی ڈھانپنا ہوتا ہے۔ اور وہ زمین کو اپنے پیروکاروں سے ڈھانپے گا یا حق کو باطل سے ڈھانپے گا یا یہ دُجِلَ الْاَثَرُ (نقش قدم مٹ گئے) سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اس کی آنکھ مٹی ہوئی ہو گی اس لیے اس کو مسیح یعنی مَمْسُوْحُ الْعَیْن کہتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1323
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1325
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نماز میں یہ دعا مانگتے تھے، ”اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ! میں گناہ اور قرض کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں، کسی پوچھنے والے نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ﷺ! آپﷺ قرض سے کس قدر زیادہ پناہ مانگتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: جب آدمی مقروض ہو جاتا ہے تو جب بات کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کر کے اس کے خلاف ورزی کرتا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1325]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: مَأْثَمْ: مصدر ہوتو معنی گناہ ہو گا، یا اس سے مراد ایسا کام ہے جو گناہ کا سبب وباعث ہو، مَغْرَمْ، یعنی قرض یا ایسا کام جو قرض کا باعث بنے۔ فوائد ومسائل: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود، آپﷺ قبر اور جہنم کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں اس کی علماء نے کئی توجیہات بیان کی ہیں۔ 1۔ امت کو دعاء کی تعلیم اور تلقین کے لیے۔ 2۔ یہ بتانے کے لیے کہ دعا مانگنا سنت ہے۔ 3۔ تواضع اور عبودیت وبندگی کے اظہار کے لیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت وہبیت اور خوف کے غلبہ کے سبب۔ 5۔ انسان کا اللہ کی طرف احتیاج اور فقر کے اظہار کے لیے۔ 6۔ اللہ کے حکم واستغفرہ کے امتثال (حکم ماننا) کے لیے۔ 7۔ امت کو استغفار کی ترغیب وتشویق (رغبت وثوق دلانا) کے لیے کہ میں اس قدر بلند وبالا درجہ رکھنے کے باوجود اگر استغفار کرتا ہوں تو تمہیں اس کا کس قدر اہتمام اور پابندی کرنی چاہیے۔ 8۔ ان گناہوں اور قبر ودوزخ سے ڈرانے کے لیے کہ یہ بہت مشکل گھاٹیاں ہیں ان کی فکر کرو۔ 9۔ دعا واستغفار، مستقل طور پراللہ کے قرب و رحمت اور رفع درجات کا باعث ہے۔ اس لیے ضروری نہیں، انسان ضرورت مند ہو یا گناہ گار ہو تو پھر ہی دعا استغفار کرے۔ بلکہ نیکیوں کے حصول اوردرجات کی بلندی کی خاطر یہ کام کرنے چاہئیں، اس لیے آپﷺ اس کے باوجود کہ مسیح دجال کا ظہور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت کے قریب ہو گا آپﷺ اس کے شروفتنہ سے پناہ طلب کرتے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1325
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6873
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتےتھے،"اے اللہ!میں تجھ سے عاجزی وبے بسی،سستی وکاہلی،بزدلی اور انتہائی بڑھاپے اور بخل سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں،قبرکے عذابسے اور موت وحیات کے فتنہ سے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6873]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: کم ہمتی، بے بسی، کاہلی، سستی، بزدلی اور کنجوسی، ایسی کمزوریاں ہیں، جن کی وجہ سے آدمی وہ جراءتمند اور ہمت و حوصلے والے اقدامات اور محنت و قربانی والے کام نہیں کر سکتا، جن کے بغیر نہ دنیا میں کامیابی میسر آ سکتی ہے اور نہ آخرت میں فوزوفلاح سے ہم کنار ہو کر اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ان کی موجودگی میں دینی و دنیوی فرائض اور حقوق کی پاسداری ہو سکتی ہے، زندگی کے فتنہ سے مراد اپنے دور حیات میں دنیا پر ریجھ کر، خواہشات نفس کا اسیر بن جانا ہے اور موت کے فتنہ سے مراد، موت کے وقت غلط اقدام کر بیٹھنا، یا فتنہ قبر سے دوچار ہونا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6873
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6376
6376. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یوں دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں فتنہ نار اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ میں فتنہ قبر اور عذاب قبر سے تیری پناہ لیتا ہوں۔ میں مال داری کے فتنے سے تیری پناہ کا طالب ہوں۔ میں فقیری کی آزمائش سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6376]
حدیث حاشیہ: مال ودولت کے فتنے کی مثال قارون کی ہے جسے اللہ نے مال کے گھمنڈ وغرور کی وجہ سے زمین دوز کر دیا اور مال کی برکت کی مثال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ہے جو تاریخ اسلام میں قیامت تک کے لئے نام پاگئے رضي اللہ عنه و أرضاہ۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو حضرت عثمان غنی بنائے۔ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6376
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6377
6377. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ! میں دوزخ کے فتنے اور دوزخ کے عذاب سے، فتنہ قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (اسی طرح) تونگری کی بری آزمائش اور محتاجی کی بری آزمائش، نیز مسیح دجال کی بری آزمائش سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ ”اے اللہ! میرے دل کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے۔ اور میرے دل کو گناہوں سے صاف کر دے جیسے تو سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کرتا ہے میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنی دوری کر دے جتنی دوری تو نے مشرق اور مغرب میں رکھی ہے۔ اے اللہ! میں سستی، گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6377]
حدیث حاشیہ: محتاجی اور قرض بہت ہی خطرناک عذاب ہیں۔ میری دن ورات یہ دعا ہے کہ اللہ مجھ کو اور میرے متعلقین اور شائقین بخاری شریف کو وقت آخر تک قرض اور محتاجی سے بچائے۔ خاص طور سے میرے جو مخلصین ادائگی قرض کے لئے دعاؤں کی درخواست کرتے رہتے ہیں اللہ پاک ان سب کا قرض ادا کرائے اورمجھ کو بھی اس حالت میں موت دے کہ میں کسی کا ایک پیسے کا بھی مقروض نہ ہوں۔ قبل ازموت اللہ سارا قرض ادا کر دے۔ آمین یارب العالمین (راز)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6377
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6376
6376. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یوں دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں فتنہ نار اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ میں فتنہ قبر اور عذاب قبر سے تیری پناہ لیتا ہوں۔ میں مال داری کے فتنے سے تیری پناہ کا طالب ہوں۔ میں فقیری کی آزمائش سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6376]
حدیث حاشیہ: دولت و ثروت بذات خود کوئی بری چیز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اگر اس کا حق ادا کرنے اور اسے صحیح طور پر صرف کرنے کی توفیق ملے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی دولت سے وہ مقام پایا کہ رہتی دنیا تک ان کا نام باقی رہے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق اعلان فرمایا: عثمان اس کے بعد جیسے بھی عمل کرے اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی، لیکن اگر بدقسمتی سے دولت مندی اور خوش حالی تکبر و غرور پیدا کرے اور مال و دولت کے صحیح استعمال کی توفیق نہ ملے تو یہ قارون کا طرز زندگی ہے۔ یہ مال و دولت ہی کا فتنہ تھا جس نے قارون کو زمین میں دھنسا دیا۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6376
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6377
6377. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ! میں دوزخ کے فتنے اور دوزخ کے عذاب سے، فتنہ قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (اسی طرح) تونگری کی بری آزمائش اور محتاجی کی بری آزمائش، نیز مسیح دجال کی بری آزمائش سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ ”اے اللہ! میرے دل کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے۔ اور میرے دل کو گناہوں سے صاف کر دے جیسے تو سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کرتا ہے میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنی دوری کر دے جتنی دوری تو نے مشرق اور مغرب میں رکھی ہے۔ اے اللہ! میں سستی، گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6377]
حدیث حاشیہ: (1) فقر اور محتاجی بہت ہی خطرناک عذاب ہے۔ اگر مفلسی اور تنگدستی کے ساتھ صبر و قناعت نہ ہو اور اس کی وجہ سے انسان ناجائز کام کرنے لگے تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک سزا ہے۔ اس دعا میں دولت مندی اور ناداری کے جس شر و فتنہ سے پناہ مانگی گئی ہے وہ یہی ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس سے ہزار بار پناہ مانگی جائے کیونکہ جس دل میں قناعت نہ ہو وہاں خضوع اور خشوع ختم ہو جاتا ہے۔ (2) مفلسی کا فتنہ یہ ہے کہ انسان روزی کمانے کے لیے حرام ذرائع اختیار کرے یا دل میں اللہ تعالیٰ پر ناراض ہو اور زبان سے اللہ تعالیٰ کا شکوہ کرے۔ ایسا شخص مفلسی کے امتحان میں ناکام ہے جس کا دنیا و آخرت میں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6377
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7129
7129. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ اپنی نماز میں دجال سے پناہ مانگتے تھے- [صحيح بخاري، حديث نمبر:7129]
حدیث حاشیہ: 1۔ دجال کا فتنہ تمام فتنوں سے بڑا فتنہ ہے۔ اس کے پاس گمراہی کا ایسا سازو سامان ہوگا۔ جو کسی دوسرے کو میسر نہیں ہوا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے مکرو فریب اور دجل و کذب سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی جائے۔ 2۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز میں تشہد پڑھتے تھے: (وَاَعُوذُبِاكَ مِن فِتّنَةِ المَسِيِح الدَّجَّالِ) ”اے اللہ! میں مسیح دجال سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ “(صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: : 6368) اس حدیث سے فتنہ دجال کی سنگینی کا پتا چلتا ہے کہ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے اس کی پناہ مانگتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7129