ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل ہو، اور تمہارے مالک کو سب سے زیادہ محبوب ہو، اور تمہارے درجات کو بلند کرتا ہو، اور تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے اور دشمن سے ایسی جنگ کرنے سے کہ تم ان کی گردنیں مارو، اور وہ تمہاری گردنیں ماریں بہتر ہو؟“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سا عمل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ اللہ کا ذکر ہے“۔ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلانے والا انسان کا کوئی عمل ذکر الٰہی سے بڑھ کر نہیں ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3790]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات 6 (3377)، (تحفة الأشراف: 10950)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القرآن 7 (24)، مسند احمد (5/195، 6/447) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3377ب) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 512
ألا أنبئكم بخير أعمالكم وأزكاها عند مليككم وأرفعها في درجاتكم وخير لكم من إنفاق الذهب والورق وخير لكم من أن تلقوا عدوكم فتضربوا أعناقهم ويضربوا أعناقكم قالوا بلى قال ذكر الله
ألا أنبئكم بخير أعمالكم وأرضاها عند مليككم وأرفعها في درجاتكم وخير لكم من إعطاء الذهب والورق ومن أن تلقوا عدوكم فتضربوا أعناقهم ويضربوا أعناقكم قالوا وما ذاك يا رسول الله قال ذكر الله
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3790
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ہر عمل کی بنیاد اللہ کے لیے اخلاص اور اس کی یاد پر ہے۔ اور تمام بڑی بڑی عبادات کا مقصد اللہ کے حضور عبودیت کا اظہار اور اس کی یاد ہے جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكري ﴾(طه 20: 14) “نماز قائم کرو میری یاد کے لیے۔ ”حج میں تلبیہ ایک اہم ذکر ہے جو ایک طویل عرصے تک مسلسل جاری رہتا ہے۔ قربانی کے موقع پر فرمایا: ﴿لِيَذكُرُوا اسمَ اللَّـهِ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعامِ﴾(الحج 22: 34) ”اللہ نے انہیں جو مویشی دیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیں“ قربانی کے دنوں کے بارے میں ارشاد نبوی ہے: ”اللہ نے انہیں جو مویشی دیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیں۔“ قربانی کے دنوں کے بارے میں ارشاد نبوی ہے: ”یہ کھانے پینے کے اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں۔“(صحيح المسلم، الصيام، باب تحريم صوم أيام التشريق ......، حديث: 1141)
(2) جہاد میں بھی خلوص اور ذکر کی وجہ سے برکت حاصل ہوتی ہے، چنانچہ جہاد کے دوران میں نماز ادا کرنے کا طریقہ بیان کرنے کے بعد فرمایا: ﴿فَإِذا قَضَيتُمُ الصَّلاةَ فَاذكُرُوا اللَّـهَ قِيامًا وَقُعودًا وَعَلىٰ جُنوبِكُم﴾(النساء 4: 103) ”جب تم نماز اداکر چکو تو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یاد کرتے رہو۔“
(3) نماز، روزہ، زکاۃ اور جہاد کے اپنے فوائد ہیں جن کی وجہ سے ان اعمال کی ادائیگی بھی ضروری ہے، تا ہم اللہ کا ذکر عبادات کے لیے روح رواں کی حیثیت رکھتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3790
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3377
´ذکر الٰہی سے متعلق ایک اور باب۔` ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے نزدیک سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والے عمل کی تمہیں خبر نہ دوں؟ وہ عمل تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے، وہ عمل تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم (میدان جنگ میں) اپنے دشمن سے ٹکراؤ، وہ تمہاری گردنیں کاٹے اور تم ان کی (یعنی تمہارے جہاد کرنے سے بھی افضل)“ لوگوں نے کہا: جی ہاں، (ضرور بتائیے) آپ نے فرمایا: ”وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے“، معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے بچ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3377]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کا ذکر اللہ کے عذاب سے نجات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، کیوں کہ ذکر: رب العالمین کی توحید، اس کی ثنا، تحمید وتمجید وغیرہ کے کلمات کو دل اور زبان پرجاری رکھنے کا نام ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3377