عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے علم نجوم میں سے کچھ حاصل کیا، اس نے سحر (جادو) کا ایک حصہ حاصل کر لیا، اب جتنا زیادہ حاصل کرے گا گویا اتنا ہی زیادہ جادو حاصل کیا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3726]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطب 22 (3905)، (تحفة الأشراف: 6559)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/227، 311) (حسن)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3726
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) علم نجوم سے مراد ستاروں کا ایسا علم ہے جس سے لوگ اپنے خیال میں قسمت کا حال معلوم کرتے ہیں یہ ممنوع ہے۔
(2) بعض لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ بارہ برجوں میں سے فلاں برج کے ایام میں پیدا ہونے والا بچہ فلاں فلاں خصوصیات کا حامل ہوتا، اور فلاں برج والا فلاں فلاں خوبیوں سے متصف ہوتا ہے۔ یہ بھی جاہلی تہمات ہیں جن کو بعض لوگ ”علم“ کا نام دیتے ہیں۔
(3) ہاتھ کی لکیروں سے قسمت کا حال بتانے والے بھی ہاتھ کے مختلف حصوں کو مختلف ستاروں کی طرف منسوب کرتے اور اس بنیاد پر پیشگوئیاں کرتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ ان سب سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(4) ستاروں کے طلوع وغروب سے وقت کا اندارہ لگانا یا چاند کی رفتار سے مہینے کے انتیس یا تیس دن کے ہونے کا اندازہ کرنا اور سفر کے دوران میں ستاروں سے سمت کا تعین کرنا ممنوع علم نجوم میں شامل نہیں۔
(6) ستاروں کے قسمت پر اثر انداز ہونے کے تصور کو ”جادو“ قرار دیا گیا ہے، یعنی یہ بھی جادو کی طرح حرام ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3726
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3905
´علم نجوم کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے علم نجوم کا کوئی حصہ اخذ کیا تو اس نے اتنا ہی جادو اخذ کیا، وہ جتنا اضافہ کرے گا اتنا ہی اضافہ ہو گا۔“[سنن ابي داود/كتاب الكهانة والتطير /حدیث: 3905]
فوائد ومسائل: علمِ نجوم سے مُراد وہ علم ہے جس کے ذریعے سے غیب کی خبریں اور اوقات کے سعد، نحس یا اُمور کے مُفید یا غیر مُفید وغیرہ ہونے کی باتیں بتائی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ لوگ ان کے موثر ہونے کا اعتقاد بھی رکھتے تھے۔ حالانکہ نہ ان سے مستقبل کے حالات معلوم ہو سکتے تھے اور نہ وہ موثر ہی ہوتے تھے۔ اس لیئے شریعت نے اس کہانت سے لوگوں کو روکا اور اس پر سخت وعید بیان فرمائی۔ تاہم اگر ستاروں کے ذریعے سے اوقات معلوم کئے جائیں یا راستے اور سمتیں متعین کی جائیں تو یہ بالا تفاق جائز ہے۔ حدیث کے آخری جملے میں تہدید اور انذار(ڈرانے) کا معنی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3905