ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میرے اوپر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 37]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4245)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الزہد والر قائق 16 (3004)، مسند احمد (2/47، 3 /39، 44) (صحیح)» (سند میں سوید بن سعید متکلم فیہ راوی ہیں، اور عطیہ العوفی ضعیف، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح بلکہ متواتر ہے)
وضاحت: ۱؎: ان حدیثوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کا عذاب مذکور ہے، اور حقیقت میں یہ بہت بڑا گناہ اور سنگین دینی جریمہ ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث37
اردو حاشہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی روایت کو ” موضوع “ کہتے ہیں۔ موضوع روایت کے متعلق چند اصول درج ذیل ہیں:
٭ موضوع روایت کو بیان کرنا بالاتفاق حرام ہے، ہاں تنبیہ کی غرض سے بیان کرنا درست ہے۔
٭ موضوع روایت کو پہچاننے کے لیے چند قواعد درج ذیل ہیں:
(الف) جھوٹا شخص اقرار کر لے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر فلاں فلاں جھوٹ گھڑا ہے جیسا کہ ابوعصمہ نوح بن ابی مریم نے قرآنی سورتوں کے فضائل گھڑے تھے اور اس کا اقرار بھی کیا تھا۔
(ب) ایسے اساتذہ سے سننے کا دعویٰ کرے جو اس کی پیدائش سے قبل فوت ہو گئے ہوں یا ان سے زندگی بھر ملاقات نہ ہوئی ہو۔
(ج) کوئی شخص اپنے گروہ کے فضائل اور مخالفین کی مذمت میں روایت بیان کرے۔
(د) روایت کے الفاظ انتہائی رکیک ہوں کہ زبان نبوی سے ان کا نکلنا محال ہو۔
٭ موضوع روایات کو گھڑنے کے چند اسباب علمائے کرام نے بیان کیے ہیں۔ موضوع روایت کو بیان کرنا یا فضائل اعمال میں ان کو قابل عمل سمجھنا یا لوگوں کو اس کی تبلیغ کرنا، ان اسباب سے ان کی قباحتیں اچھی طرح واضح ہو جاتی ہیں۔ مثلا: اپنے مذہب کی حمایت اور دوسرے مذہب کی مذمت میں احادیث گھڑنا۔ حکمرانوں کا تقرب حاصل کرنا۔ اسلام میں طعن و تشنیع، طلبِ رزق، شہرت کا حصول وغیرہ۔
٭ موضوع روایات سے عصمت انبیاء پر حرف آتا ہے۔ ائمہ و علماء کی بے ادبی ہوتی ہے اور اسلام کا روشن چہرہ دھندلا جاتا ہے، نیز بدعات کے فروغ کا ایک اہم سبب موضوع روایات بھی ہیں، لہذا ان روایات کو بیان کرنا بالکل حرام ہے۔
٭ موضوع روایات کی قباحت واضح کرنے کے لیے چند مثالیں:
(الف) عمر بن موسیٰ نامی جھوٹے نے نبی علیہ السلام پر یہ بہتان باندھا کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جب غصے میں ہوتا ہے تو وحی عربی زبان میں نازل کرتا ہے اور جب راضی ہوتا ہے تو وحی فارسی میں نازل کرتا ہے۔“ اس کے جواب میں اسماعیل نامی کذاب نے یہ روایت گھڑی: ” اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ زبان فارسی ہے اور اہل جنت کی زبان عربی ہے۔“
(ب) مامون بن احمد دجال نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مذمت اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف میں یہ روایت بنائی ہے، آپ نے فرمایا: ” میری امت میں ایک شخص محمد بن ادریس ہو گا جو میری امت کے لیے ابلیس سے زیادہ نقصان دہ ہے، جبکہ ایک شخص ابوحنیفہ ہو گا وہ میری امت کا سراج ہے۔“
٭ موضوع روایات کی معرفت کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ نہایت مفید ہے: ٭ كِتَابُ الْموْضُوعَات/لأبي الْفَرجِ عَبْدِالرَّحمٰن بن عَلِيّ بنِ الْجَوزِي. ٭اللأليُ المَصْنُوعَة/لإمَامِ السًَيُوطِي. ٭ سِلسِلةُ الْأَحَادِيْثِ الضًَعِيْفَة وَالْمَوضُوعَة/للشيخ الالباني.
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 37