فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1041
´رکوع میں قرآن پڑھنے سے ممانعت کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسی ۱؎ اور حریر ۲؎ اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے روکا ہے، اور اس بات سے بھی کہ میں رکوع کی حالت میں قرآن پڑھوں۔ دوسری بار راوی نے «أن أقرأ وأنا راكع» کے بجائے «أن أقرأ راكعا» کہا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1041]
1041۔ اردو حاشیہ:
➊ قسی کپڑے سے مراد قس (مصر کی ایک بستی) میں بنائے گئے کپڑے ہیں جن میں ریشمی پٹیاں ہوتی تھیں یا جن کا تانا ریشم سے ہوتا تھا اور بانا سوتی۔ چونکہ اس میں ریشم کافی مقدار میں ہوتا تھا، لہٰذا اس سے بھی منع فرما دیا، البتہ اگر ایک آدھ پٹی ریشم کی ہو تو کوئی حرج نہیں، مثلاً: صرف مردوں کے لیے ہے۔ عورتوں کے لیے ریشم اور سونا پہننا جائز ہے۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أُحِلّ الذهبَ والحريرَ لإناثِ أمِّتي وحُرِّمَ على ذكورها» ”سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال کر دیا گیا ہے اور مردوں پر حرام۔ [جامع الترمذي، اللباس، حدیث: 1720، و سنن النسائي، الزیینة، حدیث: 5151، واللفظ له]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1041
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5169
´سونے کی انگوٹھی کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی، ریشمی کپڑے اور سرخ زین (گدے) کے استعمال سے منع فرمایا۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5169]
اردو حاشہ:
”سرخ گدیلوں“ ان میں روئی بھری ہوتی تھی اور انہیں اونٹ کے پالان کے اوپر رکھا جاتا تھا تاکہ پالان کی لکڑی سے جسم کو تکلیف محسوس نہ ہو۔ ریشمی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ بعض نے سرخ رنگ بھی منع کیا ہے کیونکہ اس کی شوخی زیادہ ہوتی ہے اور یہ آرام سے زیادہ زیب و زینت کے لیے ہوتا ہےاورمردوں کو زینت زیب نہیں دیتی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5169
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5169
´سونے کی انگوٹھی کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی، ریشمی کپڑے اور سرخ زین (گدے) کے استعمال سے منع فرمایا۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5169]
اردو حاشہ:
”سرخ گدیلوں“ ان میں روئی بھری ہوتی تھی اور انہیں اونٹ کے پالان کے اوپر رکھا جاتا تھا تاکہ پالان کی لکڑی سے جسم کو تکلیف محسوس نہ ہو۔ ریشمی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ بعض نے سرخ رنگ بھی منع کیا ہے کیونکہ اس کی شوخی زیادہ ہوتی ہے اور یہ آرام سے زیادہ زیب و زینت کے لیے ہوتا ہےاورمردوں کو زینت زیب نہیں دیتی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5169
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5171
´سونے کی انگوٹھی کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کے چھلوں، ریشمی کپڑوں، سرخ زین، جَو اور گیہوں کے شراب سے منع فرمایا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اس سے پہلی حدیث زیادہ قرین صواب ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5171]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی نے عن أبي سحاق عن هبیرة بن یریم، عن علي والی سابقہ روایت کو ترجیح دیتے ہوئے صحیح قراردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابو اسحاق کے دیگر شاگرد، مثلاً: ابوالاحوص، زکریا بن ابوزائدہ اور زہیربن معاویہ تینوں نے بایں سند بیان کیا ہے: عن أبي سحاق عن هبیرة بن یریم، دیکھئے: (سنن النسائي، الزینة، باب خاتم الذهب، حدیث:5168، 5169، 5170) مزید برآں یہ کہ ابوداؤد کی روایت میں امام شعبہ رحمہ اللہ نے بھی ان تینوں کی متابعت کی ہے۔ انہوں نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے: عن أبي إسحاق عن هبیرۃ عن علي...... عمار بن رزیق نے ابواسحاق کے تمام شاگردوں کی مخالفت کی ہے اور یہ روایت عن أبي إسحاق، عن صعصعة عن علي کی سند سے بیان کی، اس لیے عمار بن رزیق کی بیان کردہ روایت شاذ اور ابواسحاق کے دیگر شاگردوں کی روایت محفوظ بنتی ہے، لہٰذا یہی روایت ارجح ہے۔ یاد رہے کہ یہ شذوذ صرف اس سند میں ہے۔ جہاں تک متن کا تعلق ہے تو وہ صحیح ہے کیونکہ صعصعہ کی روایت بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دوسرے طریق سے صحیح ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔ واللہ أعلم.
(2) ہر نشہ آور مشروب حرام ہے، خواہ کسی چیز سے بنا ہو، قلیل ہو یا کثیر۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5171
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5172
´سونے کی انگوٹھی کا بیان۔`
صعصعہ بن صوحان کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ ہمیں منع فرمایئے اس چیز سے جس سے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا، وہ بولے: مجھے منع فرمایا: کدو سے بنے اور سبز رنگ کے برتن سے، سونے کے چھلے، ریشمی لباس اور حریر اور سرخ زین کے استعمال سے۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5172]
اردو حاشہ:
کدو کا برتن اور تارکول لگا ہوا مٹکا بے مسام ہوتے ہیں، لہٰذا ان میں نبیذ بنایا جائے تو اس میں جلدی نشہ پیدا ہوجاتا تھا، اسی لیے لوگوں نے جاہلیت میں یہ برتن شراب بنانے کے لیے مخصوص کررکھے تھے، لہٰذا آپ نے ابتدا میں ان برتنوں کے نبیذ سے بھی روک دیا تھا، بعد میں اجازت دے دی بشرطیکہ نشہ پیدا نہ ہو۔ (فصیل اپنے مقام پر گزر چکی ہے)۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5172
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5183
´حدیث مذکور میں یحییٰ بن ابی کثیر کے شاگردوں کے اختلاف کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زرد رنگ کے کپڑے، سونے کی انگوٹھی اور ریشمی کپڑے پہننے اور رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) لیث بن سعد نے عمرو بن سعید کے برخلاف روایت کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5183]
اردو حاشہ:
امام صاحب رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ لیث بن سعد نے عمرو بن سعید کی مخالفت کی اور اس طرح بیان کیا ہے: عن نافع، عن ابراہیم بن عبداللہ بن حنین عن بعض موالی العباس عن علی..... جب کہ عمرو بن سعید نے یوں بیان کیا ہے: ان نافعاً اخبرہ قال: حدثنی ابن حنین ان علیاً..... اس کا مطلب یہ ہے کہ لیث بن سعد نے نافع کا استاد ابراہیم بن عبداللہ کو بنایا ہے جبکہ عمرو بن سعید نے نافع کا استاد ابن حنین، یعنی ابراہیم کے باپ عبداللہ کو قرار دیا ہے۔ اس میں دوسری بات یہ بھی ہے کہ عمرو بن سعید کی حدیث میں نافع نے عبداللہ بن حنین سےسماع کی تصریح کی ہے جبکہ لیث نے نافع سے بصیغۂ عن بیان کیا ہے اور عن بعض موالی العباس کہاہے مگر عمرو بن سعید نے عن بعض موالی العباس ذکر نہیں کیا۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5183
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5187
´عبیدہ کی روایت کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے لال زین، ریشمی کپڑوں اور سونے کی انگوٹھی استعمال کرنے سے منع کیا۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5187]
اردو حاشہ:
”سرخ رنگ“ عربی میں لفظ ارجوان استعمال کیا گیا ہے جو ارجوان کا معرب ہے۔ یہ سرخ رنگ کا پھول ہوتا ہے۔ گدیلوں کو ارغوان کہنے کا مطلب رنگ میں تشبیہ دینا ہے، یعنی ارغوان جیسے سرخ گدیلے۔ البتہ حرمت کی وجہ ان کی سرخی کی بجائے ان کا ریشمی ہونا ہے۔ (مزید تفصیل کےلیے دیکھئے، حدیث:69۔5168)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5187
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5215
´شہادت والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے ممانعت کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو: «اللہم اهدني وسددني» اللہ! مجھے ہدایت دے، مجھے درست رکھ“، اور آپ نے منع فرمایا کہ میں انگوٹھی اس میں اور اس میں پہنوں۔ اور اشارہ کیا شہادت کی اور بیچ کی انگلی کی طرف۔ عاصم بن کلیب نے ان میں سے صرف ایک کا تذکرہ کیا۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5215]
اردو حاشہ:
”میانہ روی“ عربی میں لفظ سداد استعمال فرمایا گیا ہے۔ اس کے لفظی معنیٰ درست بات اور درست کام کے ہیں۔ اور درست وہی ہوتا ہے جس میں میانہ روی ہو‘ لہٰذا اس معنیٰ کو ترجیح دی گئی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5215
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5288
´انگوٹھی کس انگلی میں ہو؟`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شہادت اور بیچ کی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5288]
اردو حاشہ:
”انگشت شہادت“ عربی میں سبابہ استعمال فرمایا گیا ہے۔ اس کے لفظی معنیٰ ہیں گالی دینے والی انگلی۔ جاہلیت میں لوگ گالی دیتے وقت اس انگلی سے اشارہ کرتے تھے اس لیے وہ اس کوسبابہ کہتے ہیں۔ مسلمان نمازمیں تشہد کے وقت اس انگلی سے اشارہ کرتے ہیں اس لیے ہم اسے شہادت والی انگلی کہتے ہیں۔ گالی دینا شریعت میں ویسے بھی منع ہے چہ جائیکہ کوئی انگلی سبابہ ہو۔ حدیث میں یہ لفظ عرف عام کے طور پر آگیا ہے۔ مختصر بھی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5288
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5614
´ «جعہ» جو سے بنے مشروب کو کہتے ہیں، اور «جعہ» کی نبیذ کی ممانعت کا بیان۔`
علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے چھلے، ریشمی کپڑے، لال زین پوش اور جو کے مشروب سے منع فرمایا۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5614]
اردو حاشہ:
”منع فرمایا“ قلیل وکثیر کا فرق نہیں فرمایا جبکہ یہ مشروب جو سے تیار ہوتا ہے۔ اور احناف کے نزدیک اس مشروب کو نشے سے کم کم پینا جائز ہے۔ کیا یہ صریح حدیث کی صریح مخالفت نہیں؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5614