عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «اسبال»: تہبند، کرتے (قمیص) اور عمامہ (پگڑی) میں ہوتا ہے جو اسے محض تکبر اور غرور کے سبب گھسیٹے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف قیامت کے روز نہیں دیکھے گا ۱؎۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ یہ کتنی غریب روایت ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3576]
وضاحت: ۱؎: تہبند لٹکانا سخت گناہ ہے اور اس میں بڑی وعید آئی ہے، ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبندلٹکانے والوں کو نماز اور وضو دونوں کے دہرانے کا حکم دیا، اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم تشدد اور تہدید کے طور پر تھا کیونکہ وضو ٹوٹنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، بہرحال تہبند لٹکا کے نماز پڑھنا بڑی خرابی کی بات ہے کہ اس میں نماز صحیح نہ ہونے کا اندیشہ ہے، جو غرور اور کبر کی وجہ سے ایسا کرے تو وہ مزید دھمکی کا مستحق ہے کہ اس نے دو کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا۔ اور جس کی تہبند خود بخود کبھی ٹخنوں کے نیچے ہو جاتی ہے جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں وارد ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو“ اور ٹخنے سے نیچے لٹکانا کچھ تہبند سے خاص نہیں ہے بلکہ ہر ایک کپڑے میں مقدار سنت یا مقدار ضرورت سے اور ٹخنوں تک بڑھانے کی رخصت ہے، اس سے نیچے پہننا حرام ہے، اسی طرح عمامہ کا شملہ نصف پشت سے زیادہ لٹکانا بدعت و حرام ہے، اور اسراف ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3576
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اسبال (کپڑا لٹکانا) کا لفظ عام طور پر تہبند اور شلوار وغیرہ کو ٹخنوں سے نیچے تک لٹکانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے کپڑے بھی جائز حد سے زیادہ لمبے رکھنا جائز نہیں۔
(2) علامہ محمد فواد عبدالباقی بیان کرتے ہیں کہ علماء نے پگڑی کے لٹکنے والے حصے کی حد کمر کے نصف تک بیان فرمائی ہے۔
(3) اس حدیث کے نادر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں شيئاً کا لفظ عام ہے یعنی اسبال ہر کپڑے میں ہو سکتا ہے جب اس حد سے زیادہ ہو جو شرفاء کے ہاں متعارف ہے۔ اسبال کی ممانعت والی دوسری حدیثوں میں یہ نکتہ نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3576