ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ جانے دیا جائے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3541]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15075)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/السلام 33 (2221، 2223)، سنن ابی داود/الطب 24 (3911)، مسند احمد (2/434) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیماری متعدی ہوتی ہے، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تندرست اور غیر مریض جانوروں کو مریض اونٹوں کے قریب لے جانے سے منع کیا، بلکہ آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اکثر ایسا سابقہ تقدیر اور اللہ کی مرضی کے مطابق ہو جاتا ہے، تو جانورں کا مالک تعدی کے ناحیہ سے فتنہ اور شک میں مبتلا ہو سکتا ہے، اس وجہ سے آپ نے دور رکھنے کا حکم دیا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3541
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: اس ممانعت میں یہ حکمت ہے۔ کہ اگر اللہ کے حکم سے تندرست اونٹوں کو بیماری لگ گئی تو مالک کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوسکتا ہے۔ کہ یہ بیماری بیمار اونٹوں کے ساتھ تندرست اونٹ چرانے یا انھیں ان کے ساتھ پانی پلانے سے لگی ہے لہٰذا ایمان کی حفاظت کے لئے ایسا کام ہی نہ کیاجائے جس سے صحیح عقیدے کے منافی وسوسے پیدا ہونے کاخطر ہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3541
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5791
ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی مرض متعدی نہیں“ اور یہ بھی بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیمار جانوروں والا اپنے جانور تندرست جانوروں کے پاس نہ لے جائے۔“ ابو سلمہ بیان کرتے ہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ، مذکورہ بالا دونوں حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے، پھر بعد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ”لا عدوى“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5791]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) لايورد ممرض علي مصح: ممرض، بیمار اونٹوں کا مالک۔ (2) مصح: تندرست اونٹوں والا، یہاں مفعول محذوف ہے، یعنی ابله: کہ بیماری اونٹوں والا اپنے اونٹ تندرست اونٹوں والے کے پاس نہ لے جائے۔ فوائد ومسائل: ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، جیسا کہ شروع میں ہم بیان کر چکے ہیں، اس لیے ناسخ و منسوخ کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور لا عدوی والی حدیث حضرت سائب بن یزید، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت انس بن مالک اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے، اس لیے حضرت ابو ہریرہ کا بھول جانا، اس حدیث کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتا اور جمہور علماء کے نزدیک راوی اگر روایت بھول جائے تو اس کی صحت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور حضرت ابو ہریرہ کا ایک دو روایات کو بھول جانا، ان کے اس دعویٰ کے منافی نہیں ہے کہ میں اللہ کے رسول کی دعا کے نتیجہ میں کوئی حدیث نہیں بھولا، کیونکہ ان ہزاروں احادیث میں ایک دو روایات کا بھولنا کوئی تعجب انگیز نہیں ہے اور نہ یہ ان کے دعویٰ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جبکہ ان کو بعد میں یاد بھی آ گی تھیں کیونکہ انہوں نے اپنی ساری حدیثیں لکھوائی تھیں۔