زینب زوجہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک بڑھیا آیا کرتی تھیں، وہ «حمرہ»۱؎ کا دم کرتی تھیں، ہمارے پاس بڑے پایوں کی ایک چارپائی تھی، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب گھر آتے تو کھنکھارتے اور آواز دیتے، ایک دن وہ گھر کے اندر آئے جب اس بڑھیا نے ان کی آواز سنی تو ان سے پردہ کر لیا، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آ کر میری ایک جانب بیٹھ گئے اور مجھے چھوا تو ان کا ہاتھ ایک گنڈے سے جا لگا، پوچھا: یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ سرخ بادے ( «حمرہ») کے لیے دم کیا ہوا گنڈا ہے، یہ سن کر انہوں نے اسے کھینچا اور کاٹ کر پھینک دیا اور کہا: عبداللہ کے گھرانے کو شرک کی حاجت نہیں ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”دم، تعویذ، گنڈے اور ٹونا شرک ہیں“۱؎، ایک دن میں باہر نکلی تو مجھ پر فلاں شخص کی نظر پڑ گئی، تو میری اس آنکھ سے جو اس سے قریب تر تھی آنسو بہہ نکلے، جب میں اس پر دم کرتی تو اس کے آنسو رک جاتے، اور جب میں دم کرنا چھوڑ دیتی تو آنسو بہنے لگتے، انہوں نے کہا: یہی تو شیطان ہے، جب تم اس کی اطاعت کرتی ہو تو وہ تم کو چھوڑ دیتا ہے، اور جب تم اس کی نافرمانی کرتی ہو تو وہ تمہاری آنکھ میں اپنی انگلی چبھو دیتا ہے، لیکن اگر تم وہ عمل کرتیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے موقع پر کیا تو تمہارے حق میں بہتر ہوتا، اور تم ٹھیک ہو جاتیں، تم اپنی آنکھ میں پانی کے چھینٹے مارا کرو، اور یہ دعا پڑھا کرو: «أذهب الباس رب الناس اشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما»”اے لوگوں کے رب، مصیبت دور فرما، شفاء عطا کر، تو ہی شفاء عطا کرنے والا ہے، تیری شفاء کے سوا اور کوئی شفاء ہے بھی نہیں، ایسی شفاء دے کہ کوئی بیماری باقی رہ نہ جائے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3530]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9643، مصباح الزجاجة: 1231)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطب 17 (3883)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/381) (ضعیف) (تراجع الألبانی: رقم: 142)»
وضاحت: ۱؎: «حمرۃ»: ایک بیماری جس میں جسم پر سرخ دانے نکل آتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (3883) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 504
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3530
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) مریض پرقرآن کی آیات یا مسنون دعایئں پڑھ کردم کرنا درست ہے۔ جبکہ شرکیہ دم حرام ہے۔
(2) عورتیں عورتوں کو دم کرسکتی ہیں۔
(3) مرد کو اپنے گھر میں آتے وقت بھی آواز دے کر یا کھانس کر یا سلام کرکے آناچاہیے۔ تاکہ اگر کوئی غیر محرم عورت کسی کام سے آئی ہوئی ہو تو وہ پردہ کرلے۔
(4) بوڑھی عورتوں کو بھی پردہ کرنا چاہیے۔ لیکن زیادہ بوڑھی عورتیں جن کی جسمانی کشش ختم ہوچکی ہو اگر انھوں نے زیب وزینت نہ کی ہوئی ہوتو ان کے لئے پردہ نہ کرن اجائز ہے۔ (سورہ نور: 60)
(5) دھاگے پر دم کرکے گلےمیں ڈالنا یا بازو اور کمر وغیرہ پر باندھنا منع ہے۔
(6) گلے میں پڑا ہوادھاگا یا تعویز وغیرہ اتار کر پھینک دینا مقدس کلام کی توہین نہیں بلکہ غلط کام پر ناراضی کا اظہار ہے۔
(7 تولہ۔ (حب کا عمل) ایک قسم کا جادو ٹونہ ہے۔ جاہلیت میں عربوں کا خیال تھا کہ اس کے نتیجے میں خاوند کے دل میں بیوی کی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔
(8) خاوند کے دل میں محبت پیدا کرنے کےلئے ٹوٹے ٹونکوں کی بجائے اس کی اطاعت اس کا احترام اس کی خدمت اور اس سے محبت کا اظہار بہتر عمل ہے۔
(9) بعض اوقات شرکیہ ٹوٹکوں سے بظا ہر فائدہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ اصل میں شیطانی اثر ہوتا ہے۔ تاکہ لوگوں کا اعتقاد ایسے کاموں پر پختہ ہوجائے۔
(10) صاف پانی آنکھ کی صفائی کےلئے اچھی چیز ہے۔ تاہم آنکھ میں چھینٹے زور س نہیں مارنے چاہیں۔
(11) نظر بد کا اثر بھی شیطانی اثر ہے۔ جس کاعلاج اللہ سے دعا اور مسنون دم ہے۔
(12) مذکورہ روایت کو ہمارےمحقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اور اس کے شواہد وغیرہ ذکر کیے ہیں۔ نیز اس پر خاصی طویل بحث کی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے ک باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے۔ (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 6 /110، 113) والصحیحة للأ بانی رقم: 331، وسنن ان ماجة بتحقیق محمود محمد محمود حسن نصار، رقم: 3530)
(12) خمرہ ایک جلدی بیماری ہے۔ جس میں جائے مرض کے سرخ ہونے کے علاوہ بخار تیز ہوجاتا ہے۔ بعض حضرات نے اس سے خسرہ وغیرہ کی بیماری مراد لی ہے۔ واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3530
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3883
´تعویذ لٹکانے کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: ”جھاڑ پھونک (منتر)۱؎ گنڈا (تعویذ) اور تولہ ۲؎ شرک ہیں“ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ قسم اللہ کی میری آنکھ درد کی شدت سے نکلی آتی تھی اور میں فلاں یہودی کے پاس دم کرانے آتی تھی تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو میرا درد بند ہو جاتا تھا، عبداللہ رضی اللہ عنہ بولے: یہ کام تو شیطان ہی کا تھا وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ چھوتا تھا تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو وہ اس سے رک جاتا تھا، تیرے لیے تو بس ویسا ہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3883]
فوائد ومسائل: 1) رقیة یعنی دم جھاڑ پھونک جو کفریہ یا شرکیہ کلمات پر مشتمل ہوں کرنا کرانا حرام اور شرک ہے، البتہ قرآن کریم کی آیات اور مسنون دُعاءوں سے دم کرنا سنت اور باعثِ اجر ہے۔ نیز ایسے کلمات جن میں شرک اور کفر کا کوئی شک شبہ نہ ہو اور تجربے سے مفید ثابت ہوئے ہوں ان سے دم کرنا جائز ہے۔
2) یعنی وہ منکے جو عرب لوگ اپنے بچوں کو نظرِبد سے بچانے کے لیئے پہناتے تھے، تممیہ اور تمائم کہلاتے تھے، اس میں وہ کو ڑیاں، منکے، پتھر، لوہا، چھلے، انگوٹھیاں، لکڑی اور دھاگے وغیرہ سب چیزیں شامل ہیں جو جاہل لوگ بغرضِ علاج پہنتے پہناتے تھے۔ اس میں وہ تعویز بھی آتے ہیں جو کفریہ، شرکیہ اور غیر شرعی تحریروں پر مشتمل ہوں، لیکن ایسے تعویزات جو آیاتِ قرآنیہ اور مسنون دُعائوں پر مشتمل ہوں، اُنھیں تمیمہ کہنا قرآن و سنت کی ہتک ہے۔ اس پاکیزہ کلام کو یہ برا نام دینا ناروا غلو ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ قرآن کریم یا دُعائیں لکھ کر لٹکانا رسول اللہ ﷺسے کسی طرح ثابت نہیں، حالانکہ اس دور میں کاغذ، قلم، سیاہی اور کاتب سبھی مہیا تھے اور مریض بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آتے تھے، مگر آپنے کبھی کسی کو یہ طریقہ علاج ارشاد نہیں فرمایا۔ آپﷺ نے اُنھیں دم کیا یا مختلف اذکار بتائے یا کوئی مادی علاج تجویز فرما دیا۔ آیات یا دُعائوں کو بطور تعویز لٹکانا بعد کی بات اور اختلافی مسئلہ ہے۔ علمائے سنت کا ایک گروہ اس کا قائل و فاعل رہا ہے اور دوسرا انکاری (ملاحظہ ہو آئیندہ حدیث3893) علمائے راسخین کی اور ہماری ترجیح یہی ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے۔ مگر کلام اللہ یا مسنون دُعائوں کو تمیمہ جیسا برا نام دینا بڑا ظلم ہے۔
3) محبت کے ٹوٹکے، تعویز اور گنڈے جادو کی قسم ہیں اور شرک ہیں۔
4) حضرت عبداللہ بن مسعود ؑ کی بات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شرکیہ یا کفریہ طریقوں سے لوگوں کو جو فائدہ ہوتا ہے وہ درحقیقت شیطانی اثر ہوتا ہے۔
5) واجب یہ ہے کہ ہر مسلمان ایمان و یقین کے ساتھ مسنون اعمال اختیار کرے اور یقین رکھے کہ جلد یا بدیر شفاء ہو جائے گی۔ اگر نہ ہو تو دقت نظر سے اپنا جائزہ لے کہ دُعا قبول نہ ہونے کا کیا سبب ہے اور پھر صبر سے بھی کام لے اور اللہ کے ہاں اجر اور رفع درجات کا اُمید وار رہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3883