جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیچ راستے میں رات کو پڑاؤ ڈالنے اور نماز پڑھنے سے بچو، اس لیے کہ وہ سانپوں اور درندوں کے باربار آنے اور جانے کا راستہ ہے، اور وہاں قضائے حاجت سے بھی بچو اس لیے کہ یہ لعنت کے اسباب میں سے ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 329]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2229، ومصباح الزجاجة: 135)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/5 30) (حسن)» (اس سند میں سالم بن عبد اللہ الخیاط البصری ہیں، حافظ ابن حجر نے انہیں صدوق سئی الحفظ کہا ہے، مگر زہیر بن محمد التمیمی اور عمرو بن أبی سلمہ دونوں ضعیف ہیں، اور حسن بصری اور جابر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، نیز اس حدیث میں «والصلاة عليها» کا لفظ ثابت نہیں ہے، لیکن حدیث کے جملے متفرق طور پر صحیح ہیں، پہلا جملہ «إياكم والتعريس» صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اور آخری ٹکڑے: «وقضاء الحاجة عليها فإنها من الملاعن» کے کافی شواہد ہیں: ملاحظہ ہو: ا لإرواء: 1/ 101، وسلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2433)
قال الشيخ الألباني: حسن دون الصلاة عليها
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف عمرو بن أبي سلمة الشامي يروي عن زهير بن محمد أحاديث مناكير (انظر ضعيف سنن الترمذي: 296 وضعيف سنن أبي داود: 4877) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 388
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث329
اردو حاشہ: (1) رات کو جب راستے پر انسانوں کی آمدرفت رک جاتی ہےتو موذی جانور اور حشرات اپنے ٹھکانوں سے نکل آتے ہیں۔ اور ان راستوں سے گزرتے ہیں، اس لیے اگر کوئی مسافر لیٹ کرسورہا ہوتوممکن ہے کوئی سانپ بچھووغیرہ اسے نقصان پہنچائے۔
(2) اس حدیث سے بھی راستے میں قضائے حاجت کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔
(3) بعض محققین نے (وَالصَّلَاةُ عَلَيهَا) کے الفاظ کے علاوہ اسے حسن قراردیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الصحيحة، حدیث: 2433)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 329