عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف تیزی سے بڑھے، اور کہا گیا کہ اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، یہ تین بار کہا، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ پہنچا تاکہ (آپ کو) دیکھوں، جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہو سکتا، اس وقت سب سے پہلی بات جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنی وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتوں کو جوڑو، اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز ادا کرو، (ایسا کرنے سے) تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3251]
وضاحت: ۱؎: یعنی جب یہ سارے اچھے کام کرو گے تو ضرور تم کو جنت ملے گی، سبحان اللہ کیا عمدہ نصیحتیں ہیں، اور یہ سب اصولی ہیں، سعادت و نیک بختی اور خوش اخلاقی کے ناتے جوڑنا، یعنی اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ عمدہ سلوک کرنا، امام نووی کہتے ہیں کہ ابتداً سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے، اگر جماعت کو سلام کرے تو بعضوں کا جواب دینا کافی ہو گا، اور افضل یہ ہے کہ جماعت میں ہر ایک ا بتداء سلام کرے، اور ہر ایک جواب ضروری دے اور کم درجہ یہ ہے کہ السلام علیکم کہے اور کامل یہ ہے کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے، اور السلام علیکم تو اتنی آواز سے کہنا کہ مخاطب سنے، اسی طرح سلام کا فوری جواب دینا ضروری ہے، جب کوئی شخص غائب کی طرف سے سلام پہنچائے اور بہتر ہے کہ یوں کہے علیک وعلیہ السلام، السلام علیکم الف ولام کے ساتھ افضل ہے، سلام علیکم بغیر الف اورلام کے بھی درست ہے، اور قرآن شریف میں ہے: «سلام عليكم طبتم فادخلوها خالدين»(سورة الزمر: 73)۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1334
´تہجد (قیام اللیل) پڑھنے کا بیان۔` عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں، تو لوگوں کے ساتھ آپ کو دیکھنے کے لیے میں بھی آیا، جب میں نے کوشش کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا، تو پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے، پہلی بات آپ نے جو کہی وہ یہ تھی کہ ”لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، اور رات کو نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوں، تب تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1334]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لانے سے پہلے یہودی تھے۔ لہٰذا ان علامات سے باخبر تھے۔ جوسابقہ کتب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بیان کی گیئں تھیں۔ اسی بنیاد پر وہ قبول اسلام سے مشرف ہوئے۔
(2) نیکی اور بدی سچ اور جھوٹ کا اثرانسان کے ظاہر پر بھی پڑتا ہے۔ جس کیوجہ سے سمجھدار آدمی چہرے سے پہچان لیتا ہے۔ کہ کونسا آدمی سچا ہے۔ اور کونسا جھوٹا۔ سلام عام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کہیں۔ حتیٰ کہ جس مسلمان سے براہ راست قرابت یا دوستی کا تعلق نہ ہو یا جو مسلمان اجنبی ہو۔ اسے بھی سلام کہا جائے۔
(4) کھانا کھلانے سے مراد غریب محتاج اور مستحق افراد کی مادی امداد ہے جو مسلمانوں کی باہمی ہمدردی کی وجہ سے اسلامی معاشرے کی ایک اہم خوبی ہے۔ اس کے علاوہ مہمان کی خدمت اور اس کے لئے عام کھانے سے بہتر کھانا تیار کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
(5) نماز تہجد گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا باعث ہے۔
(6) حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایئگی سے جنت ملتی ہے۔ سلامتی کے ساتھ جنت میں جانے کا مطلب گناہوں یا نیک اعمال کی کثرت کی وجہ سے جہنم کی سزا برداشت کیے بغیر جنت میں داخلہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس حدیث میں یہ جملہ بھی ہے۔ (وَصِلُو الْأَرْحَام) اور صلہ رحمی کرو۔ یعنی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو۔ (مسند أحمد: 451/4)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1334
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2485
´باب:۔۔۔` عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپ کو دیکھوں، پھر جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا، اور سب سے پہلی بات جو آپ نے کہی وہ یہ تھی ”لوگو! سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2485]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ وہ مومنانہ خصائل و عادات ہیں کہ ان میں سے ہر خصلت جنت میں لے جانے کا سبب ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2485