صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے سال خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! اللہ نے مکہ کو اسی دن حرام قرار دے دیا جس دن اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا، اور وہ قیامت تک حرام رہے گا، نہ وہاں کا درخت کاٹا جائے گا، نہ وہاں کا شکار بدکایا جائے گا، اور نہ وہاں کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے گی، البتہ اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے“، اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اذخر (نامی گھاس) کا اکھیڑنا جائز فرما دیجئیے کیونکہ وہ گھروں اور قبروں کے کام آتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اذخر اکھاڑنا جائز ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3109]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15908، ومصباح الزجاجة: 1076)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجنائز 76 (1349 تعلیقاً) (حسن)» (ابان بن صالح ضعیف ہیں، لیکن شاہد کی تقویت سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 4 /249)
الله حرم مكة يوم خلق السموات والأرض فهي حرام إلى يوم القيامة لا يعضد شجرها لا ينفر صيدها لا يأخذ لقطتها إلا منشد إلا الإذخر فإنه للبيوت والقبور فقال رسول الله إلا الإذخر
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3109
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مکہ ہمیشہ سے حرم ہے اور حرم رہے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے حرم ہونے کا اعلان فرمایا۔
(2) بعض احکام ایسے بھی ہیں جو تمام شریعتوں میں برابر قائم رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کعبہ شریف کا حج اور حرم مکہ کی حرمت بھی ہے۔
(3) حرم مکہ میں درخت کاٹنا منع ہے۔
(4) حرم کی حدود میں شکار کرنا منع ہے۔
(5) اگر جانور حرم کی حد میں داخل ہوجائےتو شکاری کے لیے جائز نہیں کہ اسے حرم کی حد سے نکالنے کی کوشش کرے۔
(6) اذخر ایک خاص قسم کی گھاس ہےجو اس علاقے میں کثرت سے پیدا ہوتی ہے۔
(7) اذخر گھاس حرم کی حد میں بھی کاٹنا جائز ہے۔
(8) رسول اللہ ﷺ سے اذخر کی اجازت طلب کی گئی اور آپ نے اجازت دے دی اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول مقبول ﷺ شرعی احکام میں ترمیم کا حق رکھتے ہیں بلکہ یہ استثنا بھی وحی کے ذریعے تھا کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے: (وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿3﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ) (النجم: 3، 4) ”پیغمبر اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے وہ تو وحی ہوتی ہے جو ان پر نازل ہوتی ہے۔“
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3109