جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ کہا (یعنی احرام باندھا)، اس میں عمرہ کو شریک نہیں کیا ۱؎، پھر ہم مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کی چار راتیں گزر چکی تھیں، جب ہم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اسے عمرہ میں تبدیل کر دیں، اور اپنی بیویوں کے لیے حلال ہو جائیں، ہم نے عرض کیا: اب عرفہ میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں، اور کیا ہم عرفات کو اس حال میں نکلیں کہ شرمگاہوں سے منی ٹپک رہی ہو؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں سب سے زیادہ نیک اور سچا ہوں ۲؎، اگر میرے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور) نہ ہوتا تو میں بھی (عمرہ کر کے) حلال ہو جاتا (یعنی احرام کھول ڈالتا اور حج کو عمرہ میں تبدیل کر دیتا)۔ سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس وقت عرض کیا: حج میں یہ تمتع ہمارے لیے صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے“۳؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2980]
وضاحت: ۱؎: یعنی حج افراد کا احرام باندھا۔ ۲؎: یعنی جو کہہ رہا ہوں کسی پس و پیش کے بغیر انجام دو، میری کوئی بات تقویٰ و پرہیز گاری کے منافی نہیں ہو سکتی۔ ۳؎: ہر ایک شخص کے لیے قیامت تک تمتع کرنا جائز ہے، اس حدیث کے ظاہر سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی احرام باندھے لیکن ہدی کا جانور ساتھ نہ ہو تو وہ مکہ میں جا کر حج کی نیت فسخ کر سکتا ہے، اور عمرہ کر کے احرام کھول سکتا ہے، پھر یوم الترویہ یعنی ذی الحجہ کی ۸ تاریخ کو حج کے لئے نیا احرام باندھے، اور اس تاریخ (آٹھ) تک سب کام کر سکتا ہے جو احرام کی حالت میں جائز نہ تھے، امام ابن القیم اعلام الموقعین میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کا فتوی ٰ دیا، پھر فتویٰ دیا کہ یہ امر مستحب ہے ضرور اس کام کو کرنا چاہئے، اور یہ حکم کسی دوسرے حکم سے منسوخ نہیں ہوا، اور دین اللہ تعالیٰ کا ہے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ حج کو فسخ کر ڈالنا اور عمرہ کر دینا اگر کوئی ان احادیث کی روسے واجب کہے تو اس کا قول قوی ہو گا، بہ نسبت اس شخص کے قول کے جو اس سے منع کرتا ہے ... الی آخرہ۔
الله كان يحل لرسوله ما شاء بما شاء إن القرآن قد نزل منازله أتموا الحج والعمرة لله كما أمركم الله أبتوا نكاح هذه النساء فلن أوتى برجل نكح امرأة إلى أجل إلا رجمته بالحجارة
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1787
´حج افراد کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا احرام باندھا اس میں کسی اور چیز کو شامل نہیں کیا، پھر ہم ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد مکہ آئے تو ہم نے طواف کیا، سعی کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احرام کھولنے کا حکم دے دیا اور فرمایا: ”اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا“، پھر سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! یہ ہمارا متعہ (حج کا متعہ) اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نہیں) بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے“۱؎۔ اوزاعی کہتے ہیں: میں نے عطا بن ابی رباح کو اسے بیان کرتے سنا تو میں اسے یاد نہیں کر سکا یہاں تک کہ میں ابن جریج سے ملا تو انہوں نے مجھے اسے یاد کرا دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1787]
1787. اردو حاشیہ: حج کے دنوں میں یا حج کے ساتھ ہی عمرہ بغیر کسی اشکال کے جائز ہے جبکہ ایام جاہلیت میں اسے بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1787
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2807
´جو شخص ہدی ساتھ نہ لے جائے وہ حج عمرہ میں تبدیل کر کے احرام کھول سکتا ہے۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے خالص حج کا احرام باندھا، اس کے ساتھ اور کسی چیز کی نیت نہ تھی۔ تو ہم ۴ ذی الحجہ کی صبح کو مکہ پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ”احرام کھول ڈالو اور اسے (حج کے بجائے) عمرہ بنا لو“، تو آپ کو ہمارے متعلق یہ اطلاع پہنچی کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں اور آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2807]
اردو حاشہ: (1)”کسی اور چیز کی نیت نہیں تھی۔“ شروع میں ایسا ہی تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ بعض نے عمرے کا احرام باندھا تھا، پھر مکہ مکرمہ کے قریب جا کر عمرے کے لزوم کا حکم اترا تو وہاں سب نے حج کے ساتھ عمرہ بھی داخل کر لیا، پھر قربانیوں والے محرم رہے، دوسرے عمرہ کر کے حلال ہوگئے۔ حج کا احرام الگ باندھا۔ یہ توجیہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح تمام احادیث اپنے معنی پر رہتی ہیں۔ (2)”منی بہا رہے ہوں گے۔“ یہ بطور مبالغہ کہا کہ حج سے اس قدر قریب جماع کرنا مناسب نہیں۔ یہ تقبیح کے لیے الفاظ ذکر کر دیے ورنہ انھیں کوئی بیماری تو نہیں تھی کہ ایسے ہوتا۔ اور حج کو تو احرام باندھ کر جانا تھا۔ (3)”تم سے بڑھ کر نیک“ یعنی جس کام کا میں حکم دوں، جو کام میں کروں، اس سے پرہیز کرنا حماقت ہے۔ اگر وہ کام قبیح ہوتا تو میں حکم ہی نہ دیتا۔ (4)”جس کا بعد میں پتا چلا“ کہ عمرہ کرنا لازم ہو جائے گا۔ (5)”ہمیشہ کے لیے“ یعنی تمتع قیامت تک کے لیے جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2807
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3024
حضرت جابر اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، ہم مکہ پہنچے اور ہم حج کے لیے بلند آواز سے تلبیہ کہہ رہے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3024]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: نَصْرَخُ صَرَاخاً: آواز بلند کر رہے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3024
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3025
ابو نضرہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھا، ان کے پاس ایک آدمی آ کر کہنے لگا، حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالٰ عنہ، متعۃ الحج اور متعۃ النساء کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں، تو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، ہم نے یہ دونوں متعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں ان دونوں سے روک دیا تھا، پھر ہم ان کی طرف نہیں لوٹے، یعنی انہیں نہیں کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3025]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: متعۃ الحج سے مراد حج تمتع اور حج قران ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج افراد کی ترغیب دیتے تھے اور متعۃ النساء کی بحث نکاح کے باب میں آئے گی۔