صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں نصرانی تھا، پھر اسلام لے آیا اور حج و عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا، سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان نے مجھے قادسیہ میں عمرہ اور حج دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارتے ہوئے سنا، تو دونوں نے کہا: یہ تو اپنے اونٹ سے بھی زیادہ نادان ہے، ان دونوں کے اس کہنے نے گویا میرے اوپر کوئی پہاڑ لاد دیا، میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے اس کا ذکر کیا، وہ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ملامت کی، پھر میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پایا، تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پایا ۱؎۔ ہشام اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ شقیق کہتے ہیں: میں اور مسروق دونوں صبی بن معبد کے پاس اس حدیث کے متعلق پوچھنے باربار گئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2970]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2970
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) غلطی کرنے والوں کو اچھے طریقے سے اس کی غلطی پر متنبہ کرنا چاہیے ورنہ اسے پریشانی ہوتی ہے۔
(2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صبی بن معبد رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں دونوں حضرات کو سخت لہجے میں تنبیہ فرمائی تاکہ حضرت صبی رضی اللہ عنہ کی جو دل آزاری ہوئی ہے۔ اس کی تلافی ہوجائے اور وہ دونوں بزرگ بھی آئندہ فتوی دینے میں احتیاط سے کام لیں۔
(3) حج قران مسنون ہے۔
(4) حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرے کی ادائیگی جائز سمجھتے تھے۔ البتہ ان کی نظر میں دونوں کو الگ الگ سفر کے ساتھ ادا کرنا بہتر تھا۔ اس لیے ان کا قران سے منع کرنا افضل کی ترغیب کے لیے تھا اس لیے نہیں کہ قران یا تمتع ان کی رائے میں شرعاً ممنوع تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2970
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1799
´حج قران کا بیان۔` ابووائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد نے عرض کیا کہ میں ایک نصرانی بدو تھا میں نے اسلام قبول کیا تو اپنے خاندان کے ایک شخص کے پاس آیا جسے ہذیم بن ثرملہ کہا جاتا تھا میں نے اس سے کہا: ارے میاں! میں جہاد کا حریص ہوں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حج و عمرہ میرے اوپر فرض ہیں، تو میرے لیے کیسے ممکن ہے کہ میں دونوں کو ادا کر سکوں، اس نے کہا: دونوں کو جمع کر لو اور جو ہدی میسر ہو اسے ذبح کرو، تو میں نے ان دونوں کا احرام باندھ لیا، پھر جب میں مقام عذیب پر آیا تو میری ملاقات سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان سے ہوئی اور میں دونوں کا تلبیہ پکار رہا تھا، تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: یہ اپنے اونٹ سے زیادہ سمجھ دار نہیں، تو جیسے میرے اوپر پہاڑ ڈال دیا گیا ہو، یہاں تک کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، میں نے ان سے عرض کیا: امیر المؤمنین! میں ایک نصرانی بدو تھا، میں نے اسلام قبول کیا، میں جہاد کا خواہشمند ہوں لیکن دیکھ رہا ہوں کہ مجھ پر حج اور عمرہ دونوں فرض ہیں، تو میں اپنی قوم کے ایک آدمی کے پاس آیا اس نے مجھے بتایا کہ تم ان دونوں کو جمع کر لو اور جو ہدی میسر ہو اسے ذبح کرو، چنانچہ میں نے دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: تمہیں اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کی توفیق ملی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1799]
1799. اردو حاشیہ: ➊ حج اور عمرے کا اکٹھے احرام باندھنا عین سنت ہے اور اس میں قربانی واجب ہے۔ ➋ علم کے تغیر فتویٰ دینا بہت بری بات ہے۔اکثر اوقات اس کے برے نتائج سامنے آتے ہیں۔ اشتنباہ کے مواقع پر راسخ علمائے دین سے رابطہ کرنا چاہیے۔ ➌ ایمان جب دل میں رچ بس جاتا ہے تو اس ک اثرات اعمال خیر کی صورت میں ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ اعمال میں کمی یا سستی اصل ایمان میں کمی کی علامت ہوتی ہے۔ <عربی> ولاحول ولاقوةالا بالله .
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1799
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:18
ابووائل شقیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں: میں اور مسروق، صبی بن معبد کے پاس گئے تاکہ ان سے اس حدیث کے بارے میں گفتگو کریں، تو صبی بولے: میں ایک عیسائی شخص تھا میں نے اسلام قبول کیا میں حج کرنے کے ارادے سے روانہ ہونے لگا، جب میں قادسیہ پہنچا تو وہاں میں نے حج اور عمرے دونوں کو ساتھ کرنے کا احرام باندھا (یا تلبہ پڑھا)۔ سلمان بن ربعیہ اور زید بن صوحان نے مجھے سنا، تو وہ بولے: یہ شخص اپنے گھر کے اونٹ سے زیادہ گمراہ ہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:18]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ”حج قران“(ایک ہی احرام میں حج اور عمرہ کرنا، درمیان میں حلال نہ ہونا) مسنون ہے۔ علم سے ناواقف لوگ بعض دفعہ بےتکی باتوں پر لوگوں کو ملامت کرتے رہتے ہیں، ایسے لوگوں کو سخت تنبیہ کرنی چاہیے، جس طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے غلط مسئلہ بتانے والوں کو ڈانٹا تھا۔ نیت کا تعلق دل سے ہے، خواہ نیت حج و عمرہ کی ہو یا نماز وغیرہ کی۔ بعض لوگ «لبيك حـجـا» کو نیت سے تعبیر کرتے ہوئے حج یا عمرہ کی نیت کو زبان کے ساتھ کرنے پر دلیل بناتے ہیں، حالانکہ «لبيك حجا» نماز کے شروع میں «الله اكبر» کی مثل ہے، جس طرح اللہ اکبر کہہ کر نماز میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی طرح حج میں «لبيك حـجـا» کہہ کر داخل ہوتے ہیں۔ یہ حدیث مفصل سنن ابی داود (1799) میں ہے، اس میں یہ اضافہ ہے کہ صُبی رحمہ اللہ نے کہا: حتٰی کہ میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا: اے امیر المؤمنین! میں ایک بدوی نصرانی آدمی تھا اور میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ جہاد پر جانے کا حریص ہوں مگر میں نے دیکھا کہ حج اور عمرہ بھی مجھ پر واجب ہو چکا ہے، تو میں اپنی قوم کے ایک آدمی کے پاس آیا، اس نے مجھے کہا: حج اور عمرہ اکٹھے کر لو اور جو میسر ہو قربانی کر لو۔ چنانچہ میں نے ان دونوں کا اکٹھے تلبیہ پکارا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھیں تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی ہدایت ملی ہے۔ حج کی تینوں قسمیں (افراد، تمتع، قران) جائز ہیں، ان کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر آئے گی، ان شاء اللہ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ غلطی کرنے والے کو اچھے طریقے سے اس کی غلطی پر متنبہ کرنا چاہیے ورنہ اسے پریشانی ہوتی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صبی رحمہ اللہ کی موجودگی میں دونوں حضرات کو سخت لہجے میں تنبیہ فرمائی تا کہ صبی رحمہ اللہ کی جو دل آزاری ہوئی ہے، اس کی تلافی ہو جائے اور دونوں بزرگ بھی آئندہ فتوی دینے میں احتیاط سے کام لیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 18
صبی بن معبد نے کہا: مجھے نصرانیت سے اسلام قبول کیے ہوئے تھوڑی ہی مدت گزری تھی، میں نے عبادت کو بجا لانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، میں نے حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا، پھر انہوں نے یہ حدیث اسی طرح بیان کی ہے جیسے اوپر گزری۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2970M]