فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 392
´نفاس والی عورتیں احرام کے وقت کیا کریں؟`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ جب انہیں ذوالحلیفہ میں نفاس آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”انہیں حکم دو کہ غسل کر لیں، اور احرام باندھ لیں“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 392]
392۔ اردو حاشیہ: نفاس یا حیض والی عورت کا احرام کے وقت غسل کرنا طہارت کے لیے نہیں، کیونکہ وہ تو نفاس یا حیض ختم ہونے کے بعد ہو گا، بلکہ یہ غسل جسمانی صفائی کے لیے ہے، کیونکہ احرام کئی دن جاری رہ سکتا ہے۔ مزید فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: 292۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 392
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 429
´احرام باندھنے کے وقت نفاس والی عورتوں کے غسل کا بیان۔`
محمد (باقر) کہتے ہیں: ہم لوگ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے، اور ہم نے ان سے حجۃ الوداع کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس ذی قعدہ کو (مدینہ سے) نکلے، ہم آپ کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ جب آپ ذوالحلیفہ آئے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابوبکر کو جنا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوایا کہ میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ”تم غسل کر لو، پھر لنگوٹ باندھ لو، پھر (احرام باندھ کر) لبیک پکارو۔“ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 429]
429۔ اردو حاشیہ:
➊ نفاس والی عورت کا احرام کے موقع پر غسل صرف جسمانی صفائی یا احرام کی اہمیت کے لیے ہے، نہ کہ پاکیزگی کے لیے کیونکہ وہ غسل تو نفاس (خون) ختم ہونے کے بعد ہو گا۔
➋ لنگوٹ باندھنا اس لیے ہے تاکہ خون کپڑوں اور جسم کو خراب نہ کرے۔ مزید دیکھیے، حدیث: 292 اور اس کے فوائدومسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 429
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 215
´نفاس سے غسل کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا والی حدیث میں روایت ہے کہ جس وقت انہیں ذوالحلیفہ میں نفاس آیا ۱؎، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ”اسے حکم دو کہ وہ غسل کر لے، اور احرام باندھ لے۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 215]
215 . اردو حاشیہ:
➊ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو نفاس کا خون آنے کی وجہ سے غسل کرنے کا حکم دیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خون نجس اور پلید ہے، جس طرح خون حیض نجس ہوتا ہے کیونکہ اس کی نجاست پر بھی علمائے کرام کا اجماع ہے۔ رہا یہ اعتراض کہ خون تو ابھی منقطع نہیں ہوا، لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا محل کیا ہے؟ لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثنائے نفاس غسل کا حکم بطور نظافت کے دیا ہے کیونکہ حالت احرام میں نظافت مطلو ب ہے، لہٰذا جب اس حالت میں غسل کا حکم ہے، تو خون منقطع ہونے کے بعد تو بالاولیٰ اسے یہ حکم ہو گا تاکہ کمال طہارت حاصل ہو جائے، غالباً امام نسائی رحمہ اللہ کی یہی مراد ہے۔ اس طرح حدیث اور باب میں باہم مطابقت کی صورت نکل آتی ہے کیونکہ امام صاحب نے بھی «الإغتسال من النفاس» کہا ہے، یعنی ”خون نفاس کی وجہ سے غسل کا بیان“، نہ کہ ان کی غرض یہ ہے کہ غسل کا حکم صرف خون منقطع ہونے کے وقت ہے۔ اس صورت میں واقعی باب کی حدیث سے مطابقت نہیں ہوتی جیسا کہ امام سندھی رحمہ اللہ سمجھے ہیں۔ «والله أعلم»
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخيرة العقبيٰ شرح سنن النسائي: 297/4]
➋ حیض یا نفاس والی عورت کے لیے غسل کرنے کے بعد حج یا عمرے کا احرام باندھ کر تلبیہ پکارنا مشروع ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 215
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 292
´احرام باندھنے کے وقت نفاس والی عورتیں کیا کریں؟`
محمد کہتے ہیں کہ ہم لوگ جابر بن عبداللہ کے پاس آئے، اور ہم نے ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج (حجۃ الوداع) کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس ذی قعدہ کو نکلے ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ جب آپ ذوالحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس نے محمد بن ابوبکر کو جنا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی بھیج کر دریافت کیا کہ اب میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غسل کر لو اور لنگوٹ کس لو، پھر لبیک پکارو۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 292]
292۔ اردو حاشیہ:
➊ نفاس سے مراد وہ خون ہے جو بچے کی پیدائش کے بعد عورت کو آتا ہے۔ اس دوران میں بھی عورت کے لیے نماز، روزہ، قرآن اور جماع «» ممنوع ہے۔ خون کے اختتام پر غسل کرنے کے بعد مذکورہ چیزیں حلال ہوتی ہیں۔
➋ احرام کے مسئلے میں نفاس والی عورت باقی عورتوں کے برابر ہے، وہ لبیک کہے گی اور حج کے تمام ارکان بھی ادا کرے گی مگر طواف اور سعی نہیں کرے گی کیونکہ اس کا حکم حیض والی عورت کی طرح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 292
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2741
´تلبیہ کہتے وقت حج یا عمرے کا نام نہ لینے کا بیان۔`
ابو جعفر محمد بن علی باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، اور ہم نے ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال تک مدینہ میں رہے پھر لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ امسال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو جانے والے ہیں، تو بہت سارے لوگ مدینہ آ گئے، سب یہ چاہتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں اور وہی کریں جو آپ کرتے ہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2741]
اردو حاشہ:
(1) ”نو سال“ آپ نے اس دوران میں عمرے تو تین کیے مگر حج نہیں فرمایا۔
(2) ”اعلان کروایا گیا۔“ تاکہ تمام موجود مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی زیارت، صحابیت اور اقتدا کا شرف حاصل ہو۔ حج کے افعال براہ راست آپ سے سیکھیں۔ آپ سے شریعت کے دیگر مسائل کا علم حاصل کریں اور مسلمانوں کی اجتماعیت اور شان وشوکت کا اظہار ہو۔
(3) ”نیت حج کی تھی۔“ یعنی مدینے سے نکلتے وقت ورنہ احرام کے وقت تو بعض لوگوں نے عمرے کا احرام بھی باندھا تھا جیسا کہ پیچھے گزرا۔ یا اکثریت کی بات ہے۔
(4) امام نسائی رحمہ اللہ نے شاید نیت کے الفاظ سے یہ استنباط کیا ہے کہ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں۔ ویسے اس حدیث میں متعلقہ مسئلے کی وضاحت نہیں۔ بہت سی روایات میں [لبَّيكَ بعُمرةٍ وحجَّةٍ] کے الفاظ صراحتاً رسول اللہﷺ سے مذکور ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1563، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: 1232) ویسے اس بات پر اتفاق ہے کہ نیت کافی ہے۔ لبیک کے ساتھ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں، البتہ ابتدائی لبیک میں ذکر ہو تو اچھی بات ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2741
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2762
´نفاس والی عورت کے تلبیہ پکارنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو برس تک مدینہ میں رہے، اور حج نہیں کر سکے، پھر (دسویں سال) آپ نے لوگوں میں حج کا اعلان کیا تو کوئی بھی جو سواری سے یا پیدل آ سکتا تھا ایسا بچا ہو جو نہ آیا ہو، لوگ آپ کے ساتھ حج کو جانے کے لیے آتے گئے یہاں تک کہ آپ ذوالحلیفہ پہنچے تو وہاں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر کو جنا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اطلاع بھیجی کہ وہ کیا کریں۔ تو آپ ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2762]
اردو حاشہ:
(1) یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں، حدیث: 2664، 2665۔
(2) نفاس والی عورت کا احرام کے وقت غسل کرنا طہارت کے لیے نہیں صرف احرام کی سنت کے طور پر ہے تاکہ احرام کے دنوں میں سر یا بدن میں جوؤں یا میل کچیل سے بچت ہو سکے۔ یہ غسل حائضہ بھی کرے گی۔ غسل کے بعد لبیک کہا جائے، پھر طواف کے علاوہ باقی ارکان ادا کیے جا سکتے ہیں، خواہ حیض ونفاس کا خون جاری ہو۔ (اسی لیے لنگوٹ باندھنے کا حکم دیا۔) جب یہ حالت ختم ہو تو بعد میں طواف کر لے، خواہ کتنی ہی تاخیر ہو جائے۔
(3) حیض اور نفاس والی عورت کی سعی کی بابت اختلاف ہے، تاہم احوط اور افضل یہی ہے کہ وہ صفا مروہ کی سعی بھی نہ کرے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2762
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2763
´نفاس والی عورت کے تلبیہ پکارنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابی بکر کو جنا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوایا کہ میں کیا کروں؟ تو آپ نے انہیں غسل کرنے، کپڑے کا لنگوٹ باندھنے، اور تلبیہ پکارنے کا حکم دیا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2763]
اردو حاشہ:
یہ فرض غسل نہیں۔ اگر کوئی مجبوری ہو اور غسل نہ کیا جائے تو بھی گزارا ہو جائے گا، تاہم بلا وجہ نہ چھوڑا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2763
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2764
´عمرہ کا تلبیہ پکارنے والی عورت کو حیض آ جائے اور اسے حج کے فوت ہو جانے کا ڈر ہو تو وہ کیا کرے؟`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا عمرہ کا تلبیہ پکارتی ہوئی آئیں۔ یہاں تک کہ جب ہم سرف ۱؎ پہنچے، تو وہ حائضہ ہو گئیں۔ اور اسی حالت میں رہیں یہاں تک کہ جب ہم (مکہ) پہنچ گئے اور ہم نے خانہ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2764]
اردو حاشہ:
(1) ”حضرت عائشہؓ نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا“ ان الفاظ سے ظاہراً یہ مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے شروع ہی سے عمرے کا احرام باندھا تھا، مگر یہ درست نہیں۔ اصل بات یوں ہے کہ حضرت عائشہؓ اور اکثر لوگوں نے حج ہی کا احرام باندھا تھا۔ راستے میں آپ نے وحی کی بنا پر یہ حکم فرمایا کہ جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں تبدیل کر لیں اور عمرہ کر کے حلال ہو جائیں۔ حضرت عائشہؓ کے ساتھ بھی قربانی کا جانور نہیں تھا، لہٰذا انھوں نے اپنے حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل لیا۔ مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو انھیں حیض شروع ہوگیا، لہٰذا وہ عمرہ نہ کر سکیں۔ یوم ترویہ (8 ذوالحجہ) تک حیض ہی ختم نہ ہوا کہ عمرہ کر کے حج شروع کرتیں۔ اسی لیے انھیں پریشانی ہوئی جس کا تفصیلی ذکر اس حدیث میں ہے۔
(2) سرف: یہ ایک مقام ہے مکہ مکرمہ سے دس میل کے فاصلے پر۔
(3) ”کس قسم کی حلت“ چونکہ ابتداء حج ہی کا احرام باندھا تھا، نیز حج کے افعال شروع ہونے کو صرف تین دن باقی تھے، اس لیے ان کو حلال ہونے میں تردد تھا۔
(4) ”مکمل حلت“ یعنی تم جماع کر سکتے ہو۔
(5) ”چار راتیں“ آپ چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے اور آٹھ ذوالحجہ کو حاجی لوگ منیٰ میں جاتے ہیں۔ درمیان میں یہی تین چار دن تھے۔
(6) ”حج کا احرام باندھ لے۔“ یعنی عمرے کے ساتھ حج کا احرام بھی باندھ لے تاکہ دونوں اٹھے ادا ہو جائیں جیسا کہ آخر میں ہے کہ تو دونوں سے فارغ ہوگئی ہے، یعنی دونوں ادا ہو گئے ہیں۔ گویا صرف نیت دونوں کی چاہیے، افعال صرف حج والے ہی ہوں گے۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک ہے، جبکہ احناف کے نزدیک قران کی صورت میں عمرہ الگ کرنا ہوگا، حج الگ۔ صرف احرام مشترکہ ہوگا۔ وہ ترجمہ کرتے ہیں: ”تو عمرے کا احرام چھوڑ کر صرف حج کا احرام باندھ لے۔“ مگر آخری الفاظ: ”تو حج و عمرہ دونوں سے حلال ہوگئی ہے۔“ اس کے خلاف ہیں۔
(7) ”میں اپنے دل میں کچھ محسوس کر رہی ہوں۔“ یعنی میرا عمرہ حج سے الگ نہیں ہوا، لہٰذا مجھے اطمینان نہیں ہو رہا۔
(8) ”اے عبدالرحمن!“ یہ عبدالرحمن حضرت عائشہؓ کے سگے بھائی تھے۔
(9) ”تنعیم“ یہ ایک مقام ہے جو مکہ سے تقریباً چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ حد ہے حل اور حرم کے درمیان۔ مطلب نبیﷺ کا یہ تھا کہ انھیں وہاں لے جاؤ تاکہ یہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھ کر آئیں اور الگ عمرہ کریں۔ رسول اللہﷺ نے صرف حضرت عائشہؓ کی دل جوئی کے لیے ان کو وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ کیونکہ تنعیم یا مسجد عائشہ کوئی میقات نہیں جس سے احرام باندھا جائے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ ایسی ہی حائضہ عورتوں کے لیے عمرے کی اجازت ثابت ہوتی ہے نہ کہ مطلقاً ہر شخص کے لیے وہاں سے احرام باندھ کر بار بار عمرہ کرنے کی، جیسا کہ بہت سے لوگ وہاں ایسا کرتے ہیں اور اسے ”چھوٹا عمرہ“ قرار دیتے ہیں۔ یہ رواج اور استدلال بے بنیاد ہے۔
(10) ”محصب میں گزاری“ یہ چودھویں رات تھی ذوالحجہ کی۔ منیٰ سے واپس آتے ہوئے آپ رات یہاں ٹھہرے تھے۔ احناف کے نزدیک یہ رات محصب میں ٹھہرنا حج کی سنت ہے جبکہ دیگر اہل علم کے نزدیک آپ کا یہاں ٹھہرنا اتفاقاً تھا۔ آپ نے مناسب نہ سمجھا کہ سارا سامان لے کر مکے جائیں اور پھر وہ سامان لے کر یہاں آئیں، لہٰذا پڑاؤ وہاں ڈال لیا۔ سامان کے بغیر مکہ مکرمہ آئے، طواف وداع کیا اور راتوں رات واپس چلے گئے۔ بعض صحابہ سے یہی بات صراحتاً منقول ہے۔ محصب کو حصبہ، حصبائ، ابطح، بطحاء اور خیف بنی کنانہ بھی کہتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2764
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1304
1304- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت اللہ کا طواف کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو رکعات نماز ادا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسود کے پاس واپس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا استلام کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفاء کی طرف تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہم اس سے آغاز کریں گے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے پہلے کیا ہے“ (ارشاد باری تعالیٰ ہے) «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ» (2-البقرة:158) ”بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1304]
فائدہ:
اس حدیث سے مقام ابراہیم پر دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے، اور اس کے بعد بھی حجر اسود کو بوسہ دینا درست ہے۔
سعی صفا سے شروع کرنی چاہیے، اس پر بحوث گزر چکی ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1302
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1305
1305- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم وادی کے نشیبی حصے میں پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوڑنے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (نشیبی حصے) کو پار کرلیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1305]
فائدہ:
صفا ومروہ کے درمیان جہاں اب سبنر لائنیں لگی ہوئی ہیں، وہاں سے تیز چل کر گزرنا ہے، حج و عمرہ میں اگر غور کیا جائے تو ہر جگہ اتباع قرآن و سنت کو لازم پکڑ نے کا درس ملتا ہے، لیکن انسان کس قدر غافل ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے دور ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1303
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2909
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں بیان کرتے ہیں جب مقام ذوالحلیفہ میں انہیں نفاس شروع ہو گیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اسے حکم دیا کہ وہ غسل کر لے اور احرام باندھ لے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2909]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نفاس والی عورت حج کا احرام باندھ سکتی ہے اور حائض کا بھی یہی حکم ہے۔
جمہور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اوراحمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک احرام کے لیے غسل کرنا مستحب ہے اور اہل ظاہر کے نزدیک فرض ہے حیض ونفاس والی عورت حج اور عمرہ کے تمام افعال ادا کرے گی،
صرف طواف نہیں کرسکے گی اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا احرام کے لیے دو رکعتیں ضروری نہیں ہیں۔
حیض ونفاس والی نماز نہیں پڑھ سکتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2909
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2950
جعفر بن محمد باقررحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم چند ساتھی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے ہم سے دریافت کیا، کہ ہم کون کون ہیں، (ہر ایک نے اپنے متعلق بتایا) یہاں تک کہ میری باری آ گئی، تو میں نے بتایا کہ میں محمد بن علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہوں، (حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے) تو انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے سر پر رکھا، اور میرے کرتے کا اوپر والا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2950]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
سَئَلَ عَنِ الْقَوْمِ:
اپنے پاس آنے والے لوگوں سے پوچھا،
تم کون ہو،
کیونکہ وہ اس وقت عمر کے آخری حصہ میں اندھے ہو چکے تھے۔
(2)
نَزَعَ زِرَّي الْاَعْليٰ:
میرا اوپر کا بٹن کھولا،
مقصد ان کا سینہ ننگا کرکے پیار وشفقت سے اس پر ہاتھ رکھنا تھا۔
(3)
نِسَاجَةٍ:
ایک بنی ہوئی چھوٹی چادر۔
(4)
مِشْجَب:
کپڑےرکھنےکا سٹول۔
(5)
اِسْتَثْفِرِيْ:
لنگوٹی باندھ لے (6)
اَهَلَّ بِالتَّوْحِيْدِ:
تلبیہ کہنا شروع کیا (7)
اِسْتَلَمَ الرُّكْنَ:
حجراسود کو بوسہ دیا،
اسے چوما۔
اَلرُّكْنُ کا لفظ جب بلا قید آئے تو اس سے مراد حجراسود ہوتا ہے۔
(8)
اِنْصَبَّتْ قَدَمَاه:
آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کےقدم نشیب میں اترے،
آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نشیبی حصہ میں پہنچے۔
(9)
مُحَرِّشاً:
بھڑکانا،
کسی کے خلاف اشتعال دلوانا،
اسم فاعل،
بھڑکانے والا۔
(10)
نَمِرَة:
عرفات سےمتصل وادی ہےجوعرفات کا حصہ نہیں ہے۔
(11)
اَلْمَشْعَرِ الْحَرَامِ:
مزدلفہ کی ایک پہاڑی ہے جس کو قزح بھی کہتے ہیں،
قریش دور جاہلیت میں یہیں رک جاتے تھے،
آگے عرفات تک نہیں جاتے تھے،
کیونکہ وہ حدود حرم سے باہر ہے اور ان کا تصور تھا،
اہل حرم کو حرم سے نہیں نکلنا چاہیے۔
(12)
بَطْنُ الْوَادِيْ:
اس سے مراد وادی عرفہ ہے جو امام مالک کے سوا،
باقی ائمہ کے نزدیک عرفات میں داخل نہیں ہے۔
(13)
كَحُرْمَةِ يَوِْمِكُمْ هٰذَا:
جس طرح اس دن کی حرمت وتعظیم انتہائی شدیداور مؤکد ہے،
اس طرح ایک دوسرے کا خون بہانا یا مال لوٹنا انتہائی قبیح جرم اوربہت بڑا گناہ ہے۔
(14)
كَلِمَةُ اللهِ:
اس سے مراد عقد نکاح،
ایجاب وقبول کےکلمات ہیں۔
(15)
ضَرْباًغَيْرَمُبَرَّحٍ:
وہ مارجوسخت اور شدید نہ ہو،
کیونکہ بَرَح کا معنی مشقت ہے۔
(16)
لَايُوْطِئْنَ فُرَشَكم اَحداً تَكْرَهُوْنَه:
کسی ایسے مرد یا عورت کو اپنا ہو یا غیر گھر میں داخل ہونے اور بیٹھنے کی اجازت نہ دیں،
جس کو خاوند پسند نہ کرتا ہو۔
(17)
كِتَابَ الله:
اللہ تعالیٰ کا قانون اور ضابطہ،
قرآن میں ہو یا سنت میں،
جس طرح کہ (فاغذ يا انيس)
والی حدیث میں ہے،
اور قرآن مجید مراد لینا بھی صحیح ہے کیونکہ اصل ضابطئہ الٰہی تو وہ ہے،
سنت تو اس کی شارع اور مفسرومبین ہے۔
(18)
يَنْكِتُهَا الي الناس:
لوگوں کی طرف جھکاتے تھے،
جس طرح زمین کھودنے کے لیے(اس)
کو نیچے کیا جاتا ہے،
اس طرح اپنی انگلی سے لوگوں کی طرف اشارہ فرماتے تھے،
(19)
صَخَرَات:
جبل رحمت کے دامن میں پھیلے ہوئے پتھر،
جبل رحمت،
عرفات کے درمیان میں ہے،
جس کے پاس کھڑے ہو کر عرفات میں وقوف کرنا مستحب ہے۔
(20)
حَبْل المُشاة:
پیدل چلنے والوں کی جمع ہونے کہ جگہ،
اگر جَبَل المُشاة ہوتو مراد ہوگا،
پیدل چلنے والوں کا راستہ۔
(21)
شَنَقَ:
اس کو اپنی طرف کھینچا،
تنگ کیا۔
(22)
مورك رَحلِه:
پالان کا اگلا حصہ۔
(23)
اَرْخيٰ:
ڈھیلا چھوڑ دیا۔
(24)
وَسِيْم:
خوبصورت،
حسین وجمیل۔
(25)
وادي مُحَسَّر:
جس وادی میں آ کر اصحاب الفیل کے ہاتھی تھک ہار گئے تھے،
یا بے بس اور عاجز ہو گئے تھے۔
(26)
جَمْرَةُ الْكُبْرٰيٰ:
جمرہ عقبہ جو اس وقت شجرہ کے پاس تھا،
دس(10)
ذوالحجہ کوصرف بڑے جمرہ پر کنکر مارے جاتے ہیں۔
(27)
حصي الخَذْف:
وہ چھوٹے چھوٹے سنگریزے جو دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکے جا سکتے ہیں۔
(28)
اِنِزعُوْا:
ڈول کھینچ کر پانی پلاؤ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2950