انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانے کجاوے پر سوار ہو کر ایک ایسی چادر میں حج کیا جس کی قیمت چار درہم کے برابر رہی ہو گی، یا اتنی بھی نہیں، پھر فرمایا: ”اے اللہ! یہ ایسا حج ہے جس میں نہ ریا کاری ہے اور نہ شہرت“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2890]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1672، ومصباح الزجاجة: 1019)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 3 (1517)، عن ثمامة بن عبد اللہ بن أنس قال: حج أنس علی رحل ولم یکن شحیحاً وحدث أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج علی رحل وکانت زاعلتہ (صحیح)» (الربیع بن صبیح و یزید بن ابان دونوں ضعیف ہیں، لیکن حدیث متابعت اور شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2617، و مختصر الشمائل: 288، فتح الباری: 3؍ 387)
وضاحت: ۱؎: یعنی خالص تیری رضا مندی اور ثواب کے لیے حج کرتا ہوں، نہ نمائش اور فخر و مباہات کے لیے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج میں زیادہ زیب و زینت کرنا اور زیادہ عمدہ سواری یا عمدہ لباس رکھنا خلاف سنت ہے، حج میں بندہ اپنے مالک کے حضور میں جاتا ہے تو جس قدر عاجزی کے ساتھ جائے پھٹے پرانے حال سے اتنا ہی بہتر ہے تاکہ مالک کی رحمت جوش میں آئے، اور یہی وجہ ہے کہ حج میں سلے ہوئے کپڑے پہننے سے اور خوشبو لگانے سے منع کیا گیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يزيد بن أبان الرقاشي ضعيف وله شاھد ضعيف عند ابن خزيمة (2836) وللحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 482
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2890
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حج کے سفر میں ضروری سامان کا استعمال درست ہے مثلاً: اونٹ پر کجاوہ رکھ کر سفر کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بس اور جہاز کا سفر درست ہے۔ کیونکہ یہ ایک ضرورت ہے اس سے عیش وعشرت مقصود نہیں۔
(2) رسول اللہﷺ نے معمولی قسم کا لباس پہنا اور معمولی سواری پر سفر کیا تاکہ زیب وزینت کا اظہار نہ ہو۔
(3) عیدین اور جمعہ میں زیب و زینت کا اظہار درست ہے لیکن حج وعمرہ کے سفر میں زیادہ سے زیادہ سادگی اختیار کرنا مناسب ہے۔
(4) نیکی کے عمل میں اخلاص کو زیادہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2890