عبداللہ بن شداد کی اخیافی بہن بنت حمزہ کہتی ہیں کہ میرا ایک غلام فوت ہو گیا، اس نے ایک بیٹی چھوڑی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مال میرے اور اس کی بیٹی کے درمیان تقسیم کیا، اور مجھے اور اس کی بیٹی کو آدھا آدھا دیا، (بیٹی کو بطور فرض اور بہن کو بطور عصبہ)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2734]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18372، ومصباح الزجاجة: 966)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الفرائض 31 (3056) (حسن)» (سند میں ابن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1696)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد ابن أبي ليلي ضعيف وخالفه شعبة عن الحكم عن عبد اللّٰه بن شداد به مرسلاً،وأخرجه أبو داود في المراسيل (ح364) وتابعه غير واحد عن الحكم به فالحديث منقطع كما قال البيھقي (6/ 241) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 478
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2734
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (الإرواء للألبانی، رقم: 1596) بنابریں اگر فوت ہونے والے کی ایک بیٹی ہو تو اس بیٹی کو ترکے میں سے نصف ملتا ہے، چنانچہ مذکورہ بالا واقعے میں متوفی کی بیٹی کو نصف ترکہ دیا گیا۔ باقی عصبہ کا حق تھا، وہ آزاد کرنے والی صحابیہ رضی اللہ عنہا کو ملا کیونکہ متوفی کا اور کوئی عصبہ نہیں تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2734