ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”جس نے کسی ایسے ذمی کو قتل کر دیا جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے پناہ دے رکھی ہو، تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے محسوس کی جاتی ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2687]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2687
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) مسلمان ملک کے غیرمسلم باشندے ”ذمی“ کہلاتے ہیں کیونکہ اسلامی حکومت ان کے حقوق کی حفاظت کا ذمہ اٹھاتی ہے۔
(2) یہ حقوق انہیں اللہ کے حکم سے اور رسول اللہﷺ کی ہدایات کی روشنی میں دیے جاتے ہیں، اس لیے گویا ان کا ذمہ اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ نے اٹھایا ہے، لہٰذا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ اور رسول کی ذمے داری کی ادائیگی میں خلل ڈالے۔
(3) جنت کی خوشبو نہ پانے کا مطلب یہ ہے کہ جنت سے ہزاروں میل دور ہوگا۔ آخرت میں صرف جنت اور جہنم ہی کے مقامات ہیں، اس لیے اس میں یہ وعید ہے کہ وہ شخص جہنم میں جائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2687
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1403
´ذمی اور معاہدہ والوں کے قاتل کے بارے میں وارد وعید کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار! جس نے کسی ایسے ذمی ۱؎ کو قتل کیا جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ حاصل تھی تو اس نے اللہ کے عہد کو توڑ دیا، لہٰذا وہ جنت کی خوشبو نہیں پا سکے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت (دوری) سے آئے گی۔“[سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1403]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ایسا کافر جو کسی اسلامی مملکت میں مسلمانوں سے کیے ہوئے عہد وپیمان کے مطابق رہ رہا ہو خواہ جزیہ دے کر معاہدہ کرکے رہ رہا ہو یا دار الحرب سے معاہدہ یا امان پر دار السلام میں آیا ہو، اسے مسلمانوں کی پناہ اس وقت تک حاصل ہوگی جب تک وہ بھی اپنے معاہدہ پر قائم رہے، یا اپنے وطن دار الحرب لوٹ جائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1403