ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا کوئی شخص قتل کر دیا جائے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے، یا تو وہ قاتل کو قصاص میں قتل کر دے، یا فدیہ لے لے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2624]
وضاحت: ۱؎: ایک تیسری بات یہ ہے کہ معاف کر دے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ نبی اسرائیل میں قصاص تھا لیکن دیت نہ تھی، تو اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری: «كتب عليكم القصاص في القتلى»(سورة البقرة: 178)”مسلمانوں قتل میں تمہارے اوپر قصاص فرض کیا گیا ہے“ اور قصاص کے بارے میں فرمایا: «ولكم في القصاص حياة»(سورة البقرة: 179)”تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے“ غرض ان آیات و احادیث سے قصاص ثابت ہے اور اس پر علماء کا اجماع ہے۔
فمن عفي له من أخيه شيء فاتباع بالمعروف وأداء إليه بإحسان سورة البقرة آية 178 ، قال : كانت بنو إسرائيل إذا قتل فيهم القتيل عمدا لم يحل لهم إلا القود ، وأحلت لكم الدية ، فأمر هذا أن يتبع بالمعروف ، وأمر هذا أن يؤدي بإحسان ، فذلكم تخفيف من ربكم
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4789
´جب مقتول کا وارث قصاص معاف کر دے تو کیا قاتل عمد سے دیت لی جائے گی؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا کوئی آدمی قتل ہو گیا ہو تو اسے اختیار ہے، چاہے تو قصاص لے، چاہے تو دیت لے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4789]
اردو حاشہ: عموماً مقتول کے ورثاء قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں یا پھر دیت پر راضی ہو جاتے ہیں، اس لیے دو چیزوں کا ذکر فرمایا، تاہم اگر مقتول کے ورثاء درگزر کرتے ہوئے بالکل معاف کر دیں تو بھی قرآن کے عموم کے پیش نظر جائز ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ قصاص، دیت یا معافی کا اختیار مقتول کے ورثاء کو ہے نہ کہ قاتل کو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4789
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4505
´مقتول کا وارث دیت لینے پر راضی ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا: ”جس کا کوئی قتل کیا گیا تو اسے اختیار ہے یا تو دیت لے لے، یا قصاص میں قتل کرے“ یہ سن کر یمن کا ایک شخص کھڑا ہوا جسے ابوشاہ کہا جاتا تھا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے یہ لکھ دیجئیے (عباس بن ولید کی روایت «اکتب لی» کے بجائے «اکتبوا لی» یہ صیغۂ جمع ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو شاہ کے لیے لکھ دو۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: «اکتبوا لی» سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4505]
فوائد ومسائل: 1: قتل عمد میں قاتل سے قصاص ہوتا ہے یا پھر اگر مقتول کے وارث رضا مند ہوں تو دیت بھی لے سکتے ہیں۔
2: رسول ؐ کے دور میں احادیث رسول لکھی بھی گئی ہیں تاہم ان کا دائرہ بہت محدود تھا اورصحابہ کرام رضی اللہ بجا طور پر یہ سمجھتے اور عقیدہ رکھتے تھے کہ فرامین رسول ؐ ہی ہمارے لئے معیار عمل ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4505