الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الشفعة
کتاب: شفعہ کے احکام و مسائل
2. بَابُ : الشُّفْعَةِ بِالْجِوَارِ
2. باب: پڑوس ہونے کی وجہ سے حق شفعہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2496
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ الشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرْضٌ لَيْسَ فِيهَا لِأَحَدٍ قِسْمٌ وَلَا شِرْكٌ إِلَّا الْجِوَارُ، قَالَ:" الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ".
شرید بن سوید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک زمین ہے جس میں کسی کا حصہ نہیں اور نہ کوئی شرکت ہے، سوائے پڑوسی کے (تو اس کے بارے میں فرمائیے؟!) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنی نزدیکی زمین کا زیادہ حقدار ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الشفعة/حدیث: 2496]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/البیوع 107 (4707)، (تحفة الأشراف: 4840) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث اور اس حدیث میں بظاہر تعارض ہے، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان دونوں میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شفعہ کی دو قسمیں ہیں: ایک شعفہ یہ ہے کہ مالک کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ شفیع پر پیش کرے، اور دوسروں پر اسے ترجیح دے، اور اس شفعہ پر قضاء میں وہ مجبور نہ کیا جائے، اور یہی اس پڑوسی کا حق ہے جو شریک نہیں ہے، اور دوسری قسم یہ ہے کہ اس شفعہ پر اسے قضاء میں مجبور کیا جائے گا، اور یہ اس پڑوسی کے حق میں ہے جو شریک بھی ہے، (حجۃ اللہ البالغۃ ۲/۱۱۳)۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن ابن ماجهالجار أحق بسقبه
   سنن النسائى الصغرىالجار أحق بسقبه

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2496 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2496  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یعنی ہمسائیگی کی بنا پروہ دوسروں کی نسبت اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ زمین یا مکان فروخت کرتےوقت پہلے اس سے پوچھا جائے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہیے توخرید لے تاہم مالک اگر ہمسائے سے پوچھے بغیرکسی اورکے ہاتھ فروخت کر دے تو قانونی طور پرہمسایہ محض ہمسائیگی کی بنا پر حق شفعہ نہیں رکھتا جیسا کہ حدیث 2499 میں اس کی وضاحت موجود ہے نیز دیکھیں حدیث: 2499 کےفوائد۔

(2)
اگر زمین یا مکان کی فروخت کےموقع پر شریک ہمسایہ موجود نہ ہوتو اس کے آنے پر اسے شفعے کا حق دیا جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2496   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4707  
´شفعہ اور اس کے احکام کا بیان۔`
شرید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میری زمین ہے، جس میں کسی کی حصہ داری اور شرکت نہیں اور نہ ہی پڑوس کے سوا کسی کا حصہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے پڑوسی کا زیادہ حقدار ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4707]
اردو حاشہ:
(1) ہمسائے کو بوجہ ہمسائیگی دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ حق حاصل ہے کہ جب کوئی شخص اپنی زمین یا مکان و دکان وغیرہ بیچنا چاہے تو فروخت کرنے سے پہلے اپنے ہمسائے سے پوچھ لے کہ اگر وہ خریدنا چاہے توخرید لے۔ مالک جائیداد اگر ہمسائے سے پوچھے بغیر ہی کسی دوسرے شخص کے ہاتھ اپنی جائیداد فروخت کر دے تو قانونی اور شرعی طور پر ہمسائے کو محض حق ہمسائیگی کی بنا پر شفعہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ صحیح بخاری میں اس مسئلے کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، البیوع، باب بیع الشریك من شریكه، حدیث: 2213)
(2) یہ اہم مسئلہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ حق شفعہ صرف غیر منقولہ جائیداد، مثلاً: زمین، مکان، باغ اور دکان وغیرہ میں ہے۔ منقولہ جائیداد میں کسی کو شفعے کا کوئی حق نہیں۔ مزید براں یہ بھی کہ جو مال تقسیم نہ کیا جا سکے اس میں بھی کوئی شفعہ نہیں۔ واللہ أعلم۔
(3) حق دار ہے۔ بشرطیکہ راستہ ایک ہو۔ یا استحباب مراد ہے جیسے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے فرمایا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4707