عبداللہ بن ابی ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے موقع پر ان سے تیس یا چالیس ہزار قرض لیا، پھر جب حنین سے واپس آئے تو قرض ادا کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تیرے اہل و عیال اور مال و دولت میں برکت دے، قرض کا بدلہ اس کو پورا کا پورا چکانا، اور قرض دینے والے کا شکریہ ادا کرنا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2424]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الإستقراض 95 (4687)، (تحفة الأشراف: 5252)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/36) (حسن)» (سند میں ابراہیم بن عبداللہ کے حالات غیر معروف ہیں، شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإراوء: 1388)
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4687
´قرض لینے کا بیان۔` عبداللہ بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چالیس ہزار قرض لیے، پھر آپ کے پاس مال آیا تو آپ نے مجھے ادا کر دئیے، اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں، تمہارے گھر والوں اور تمہارے مال میں برکت عطا فرمائے، قرض کا بدلہ تو شکریہ ادا کرنا اور قرض ادا کرنا ہی ہے۔“[سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4687]
اردو حاشہ: (1) ضرورت کے تحت قرض لینا جائز ہے۔ لیکن اس کی ادائیگی کی فکر بھی رہنی چاہیے، وسعت ہونے یا وقت مقررہ آنے پر فوراً ادائیگی کرنی چاہیے۔ اس بارے میں ہمیشہ احسان ہی سے کام لیا جائے، یعنی بروقت اور مکمل ادائیگی، اچھے انداز میں کی جائے۔ اگر کوئی شخص اپنے ذمے قرض سے، قرض خواہ کے مطالبے کے بغیر زیادہ ادائیگی کر دے تو یہ بہترین ادائیگی کے ساتھ ساتھ احسان بھی ہے۔ صاحب ثروت لوگوں کو اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ (2) مقروض کو چاہیے کہ ادائیگی کے وقت بالخصوص اور عام اوقات میں بالعموم قرض خواہ کے لیے دعائیں کرتا رہے۔ قرض خواہ کو دعائیں دینا اور اس کا شکریہ ادا کرنا بھی احسن انداز سے ادائیگی میں شامل ہے، خصوصاً اس کے اہل وعیال اور مال ومتاع اور کاروبار میں برکت کی دعا دینا مسنون عمل ہے۔ (3) ضرورت کے وقت قرض لینا جائز ہے، خصوصاً قومی ضروریات کے لیے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ قرض بھی قومی ضرورت کے لیے تھا نہ کہ ذاتی ضرورت کے لیے۔ مذمت بلا ضرورت قرض لینے کی ہے یا جب قرض لیتے وقت ادائیگی کی نیت نہ ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4687