عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک شخص ایک قرض دار کے پیچھے لگا رہا جس پر اس کا دس دینار قرض تھا، وہ کہہ رہا تھا: میرے پاس کچھ نہیں جو میں تجھے دوں، اور قرض خواہ کہہ رہا تھا: جب تک تم میرا قرض نہیں ادا کرو گے یا کوئی ضامن نہیں لاؤ گے میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا، چنانچہ وہ اسے کھینچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہ سے پوچھا: ”تم اس کو کتنی مہلت دے سکتے ہو“؟ اس نے کہا: ایک مہینہ کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو میں اس کا ضامن ہوتا ہوں“، پھر قرض دار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دئیے ہوئے مقررہ وقت پر اپنا قرضہ لے کر آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”تجھے یہ کہاں سے ملا“؟ اس نے عرض کیا: ایک کان سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں بہتری نہیں“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی جانب سے ادا کر دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2406]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3328
´معدنیات نکالنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے قرض دار کے ساتھ لگا رہا جس کے ذمہ اس کے دس دینار تھے اس نے کہا: میں تجھ سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ تو قرض نہ ادا کر دے، یا ضامن نہ لے آ، یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض دار کی ضمانت لے لی، پھر وہ اپنے وعدے کے مطابق لے کر آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”یہ سونا تجھے کہاں سے ملا؟“ اس نے کہا: میں نے کان سے نکالا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے (لے جاؤ) اس میں بھلائی نہیں ہے“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے (قرض ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3328]
فوائد ومسائل: 1۔ معادن (کانوں) سے اسلامی حکومت کی اجازت سے شرعی شرائط کے مطابق مال نکالنا جائز ہے۔
2۔ اس شخص کو جو سونا کان سے ملا تھا۔ اس کا طریق حصول غیر واضح تھا۔ اس لئے یقینی طور پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کہ وہ اس کا جائز مالک ہے یا نہیں اس لئے آپ نے اس کو قبول نہیں فرمایا۔
3۔ مقروض جب قرض ادا نہ کررہا ہو تو چمٹ کر مطالبہ کرنا مباح ہے۔
4۔ مسلمان مقروض کی مدد کرنا اس کا کفیل یا ضامن بن جانا بہت بڑا احسان اور نیکی کا کام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3328