محمد بن یحییٰ بن حبان کہتے ہیں کہ میرے دادا منقذ بن عمرو ہیں، ان کے سر میں ایک زخم لگا تھا جس سے ان کی زبان بگڑ گئی تھی، اس پر بھی وہ تجارت کرنا نہیں چھوڑتے تھے، اور ہمیشہ ٹھگے جاتے تھے، بالآخر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جب تم کوئی چیز بیچو تو یوں کہہ دیا کرو: دھوکا دھڑی نہیں چلے گی، پھر تمہیں ہر اس سامان میں جسے تم خریدتے ہو تین دن کا اختیار ہو گا، اگر تمہیں پسند ہو تو رکھ لو اور اگر پسند نہ آئے تو اسے اس کے مالک کو واپس کر دو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2355]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 19428، ومصباح الزجاجة: 826) (حسن)» (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور راویت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، کما تقدم، تراجع الألبانی: رقم: 102)
وضاحت: ۱؎: پس یہ اختیار خاص کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منقذ کو دیا تھا، اگر کسی کے عقل میں فتور ہو تو حاکم ایسا اختیار دے سکتا ہے، نیز مسرف اور بے وقوف پر حجر کرنا جائز ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2355
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) «آمَّة» سر میں آنے والے اس زخم کو کہتے ہیں جو دماغ کی بیرونی جھلی تک جا پہنچے۔
(2) کم عقل آدمی بھی خرید وفروخت کر سکتا ہے تاہم اسلامی سلطنت کا افسر اس پر پابندی لگانے کا حق رکھتا ہے۔
(3) «لاخلابة» دھوکا نہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس تنبیہ کے باوجود اگر تم نے مجھے دھوکا دے کر چیز کی بہت کم قیمت دی یا بہت زیادہ قیمت لے لی تو تم قصور وار گنے جاؤ گے۔
(4) جب سودا طے پا جانے کے بعد کوئی مدت متعین کر لی جائے تو اس مدت میں بیع ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2355