انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اور نااہلوں و ناقدروں کو علم سکھانے والا سور کے گلے میں جواہر، موتی اور سونے کا ہار پہنانے والے کی طرح ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 224]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1470، ومصباح الزجاجة: 83) (ضعیف جدًا)» (اس کی سند میں حفص بن سلیمان البزار ضعیف بلکہ متروک الحدیث راوی ہے، اس لئے اس سند سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن پہلا ٹکڑا: «طلب العلم فريضة على كل مسلم» طرق و شواہد کی بناء پر صحیح ہے، اور دوسرا ٹکڑا: «وواضع العلم عند غير أهله كمقلد الخنازير الجوهر واللؤلؤ والذهب» ضعیف ہے کیونکہ اس کاراوی حفص ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 218 ا لضعیفہ: 216)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ ہر مسلمان پر دین کے وہ مسائل سیکھنا فرض ہے جو ضروری ہیں، مثلا عقیدہ،نماز، روزہ کے مسائل یا اس سے مراد یہ ہے کہ جس مسلمان کو کوئی مسئلہ در پیش ہو تو ضروری ہے کہ اس کے بارے میں علماء سے پوچھے، ورنہ طلب علم فرض کفایہ ہے، اگر کچھ لوگ اس کو حاصل کر لیں تو باقی افراد عند اللہ ماخوذ نہ ہوں گے، اور اگر سبھی علم دین سیکھنا چھوڑ دیں تو سب گنہگار ہوں گے، امام بیہقی اپنی کتاب ”المدخل إلی السنن“ میں کہتے ہیں کہ شاید اس سے مراد یہ ہے کہ وہ علم سیکھنا فرض ہے جس کا جہل کسی بالغ کو درست نہیں، یا وہ علم مراد ہے جس کی ضرورت اس مسلمان کو ہو مثلاً تاجر کو خرید و فروخت کے احکام و مسائل کی، اور غازی کو جہاد کے احکام و مسائل کی یا یہ کہ ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض عین ہے، مگر جب کچھ لوگ جن کے علم سے سب کو کفایت ہو تحصیل علم میں مشغول ہوں تو باقی لوگ ترک طلب کے سبب ماخوذ نہ ہوں گے، پھر ابن مبارک کا یہ قول نقل کیا کہ ان سے اس حدیث کی تفسیر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اس سے مراد یہ ہے کہ جب کسی مسلمان کو کسی مسئلہ کی ضرورت پڑے تو کسی عالم سے پوچھ لینا ضروری ہے تاکہ اس کا علم حاصل ہو، اور اس کی طرف اشارہ آیت: «فاسألوا أهل الذكر» میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله وواضع العلم الخ فإنه ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا حفص القارئ: متروك انوار الصحيفه، صفحه نمبر 382
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث224
اردو حاشہ: (1) ہر مسلمان سے مراد مرد اور عورتیں سبھی ہیں کیونکہ شریعت کے احکام پر عمل کرنا مردوں اور عورتوں سبھی پر فرض ہے، لہذا انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کیا جائز ہے کیا ناجائز۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں سب کو دین سکھایا اور اس کے مسائل بتائے۔
(2) یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن اس کا پہلا حصہ (طلب علم کی فرضیت) معناً صحیح ہے، یعنی احکام شریعت کا ضروری علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 224
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 218
´اہل علم کی فضیلت` «. . . وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غير أَهله كمقلد الْخَنَازِير الْجَوْهَر واللؤلؤ وَالذَّهَبَ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ إِلَى قَوْلِهِ مُسْلِمٍ. وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ مَتْنُهُ مَشْهُورٌ وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ وَقَدْ رُوِيَ من أوجه كلهَا ضَعِيف . . .» ”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور نااہل کو علم سکھانے والا اس شخص کی طرح ہے جو سور کے گلے میں جواہرات اور موتی سونے کا ہار ڈالنے والا ہے۔“ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور بیہقی نے شعیب الایمان میں روایت کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس کا متن مشہور ہے سند ضعیف ہے اور بہت سے طرق سے مروی ہر ایک طرح سے ضعیف ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 218]
تحقيق الحديث: اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔ ◄ اس کا راوی قاری ابوعمر حفص بن سلیمان الاسدی البزاز الکوفی: حفص بن ابی داود صاحب عاصم روایت حدیث میں سخت ضعیف و مجروح تھا۔ ◄ ابوحاتم الرازی نے کہا: ”وہ ضعیف الحدیث ہے، سچ نہیں بولتا، متروک الحدیث ہے۔“[كتاب الجرح والتعديل 3؍174] ◄ امام مسلم نے کہا: «متروك الحديث» ۔ [كتاب الكنيٰ قلمي ص71؍147] ◄ امام بخاری نے فرمایا: «تركوه»”یعنی محدثین نے اسے متروک قرار دیا ہے۔“[كتاب الضعفاء: 73] ◄ قاری حفص بن ابی داود پر جمہور محدثین نے جرح کی اور ان کے بارے میں اعدل الاقوال درج ذیل ہے: «متروك فى الحديث، ثقة فى القرآن» ”وہ حدیث میں متروک اور قرآن (کی روایت) میں ثقہ تھے۔“ دیکھئے: [تحفة الاقوياء ص29] ◄ حافظ ابن حجر العسقلانی نے کہا: «متروك الحديث مع إمامته فى القراءة.» ”وہ قرأت میں امام ہونے کے باوجود حدیث میں متروک ہے۔“[تقريب التهذيب:1405]
فائدہ: «طلب العلم فريضة عليٰ كل مسلم» والی روایات کی مفصل تخریج شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: [تخريج أحاديث مشكلة الفقر وكيف عالجها الإسلام ص 48۔ 62 ح86] میں کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے لیکن اس کی تمام سندیں ضعیف و مردود ہی ہیں۔ مثلاً: ➊ [تاريخ دمشق لابن عساكر 58؍144، دوسرا نسخه 15؍1461/ 1]، [امالي ابن سمعون 23] اور [مشيخة الآبنوسي 154] والی روایت میں ابوعلی محمد بن محمد بن ابی حذیفہ قاسم کی توثیق نامعلوم ہے، قتادۃ مشہور مدلس تھے اور روایت (ان تک بشرط صحت) «عن» سے ہے۔ ◄ شیخ البانی رحمہ اللہ کو اس سند کے ایک راوی أحمد بن محمد بن ابی الخناجر کے حالات نہیں ملے، حالانکہ ان کا تذکرہ کتاب الجرح والتعدیل [2؍73] سیر اعلام النبلاء [13؍240] اور المستدرک للحاکم [4؍399 ح8207 وقال ابن صاعد: وكان ثقة مأمونًا] میں موجود ہے اور وہ ثقہ وصدوق تھے۔ ➋ [المعجم الصغير للطبراني 1؍16 ح22 بترقيمي، دوسرا نسخه ص6] والی روایت میں حکم بن عطیہ جمہور کے نزدیک ضعیف ديكهئے: [سنن الترمذي بتحقيقي: 3668] عباس بن اسماعیل الہاشمی مجہول الحال «وثقه ابن حبان وحده بتوثيق لين» اور أحمد بن بشر بن حبیب البیروتی کی توثیق نامعلوم ہے۔ ➌ الفواید لتمام الرازی [مخطوط ص9ب، مطبوع 1؍32 ح56، دوسرا نسخه 8؍2] والی روایت میں ابوبکر بن ابی شیبہ محمد بن أحمد البغدادی کی توثیق اور حالات نامعلوم ہیں۔ ◄ أحمد بن محمد بن شبیب بن زیاد ابوبکر بن ابی شیبہ ثقہ تھے، لیکن الفوائد کی روایت میں أحمد بن محمد نہیں بلکہ محمد بن أحمد ہے اور معلوم نہیں کہ شیخ البانی نے کس دلیل سے محمد بن أحمد کو أحمد بن محمد بنا ڈالا؟ ➍ عائذ بن ایوب طوسی مجہول اور اسماعیل بن ابی خالد مدلس والی روایت بھی ضعیف ہے۔ ↰ خلاصہ یہ کہ طلب العلم فریضہ والی روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف و مردود ہے۔ بیہقی نے «اطلبو العلم ولو بالصين فإن طلب العلم فريضة عليٰ كل مسلم» کے بارے میں کہا: «هذا حديث متنه مشهور وأسانيده ضعيفة. لا أعرف له إسنادا يثبت بمثله الحديث. والله أعلم» اس حدیث کا متن مشہور ہے اور اس کی سندیں ضعیف ہیں۔ مجھے اس کی کوئی ایسی سند معلوم نہیں جس سے یہ حدیث ثابت ہوتی ہو۔ «والله اعلم»[المدخل الي السنن الكبريٰ: 325] ◄ جبکہ ابوعلی الحسین بن علی الحافظ النیسابوری رحمہ اللہ اس حدیث کو صحیح سمجھتے تھے، لیکن راجح یہی ہے کہ یہ روایت غیر ثابت اور ضعیف ہے۔ «والله اعلم»