الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الكفارات
کتاب: قسم اور کفاروں کے احکام و مسائل
21. بَابُ : مَنْ خَلَطَ فِي نَذْرِهِ طَاعَةً بِمَعْصِيَةٍ
21. باب: جس نے نذر میں عبادت اور گناہ دونوں کو ملا دیا ہو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2136
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ بِمَكَّةَ وَهُوَ قَائِمٌ فِي الشَّمْسِ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟، قَالُوا: نَذَرَ أَنْ يَصُومَ وَلَا يَسْتَظِلَّ إِلَى اللَّيْلِ، وَلَا يَتَكَلَّمَ وَلَا يَزَالُ قَائِمًا، قَالَ:" لِيَتَكَلَّمْ وَلْيَسْتَظِلَّ وَلْيَجْلِسْ وَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ایک آدمی کے پاس سے گزرے، وہ دھوپ میں کھڑا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اس نے نذر مانی ہے کہ وہ روزہ رکھے گا، اور رات تک سایہ میں نہیں رہے گا، اور نہ بولے گا، اور برابر کھڑا رہے گا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو چاہیئے کہ بولے، سایہ میں آ جائے، بیٹھ جائے اور اپنا روزہ پورا کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2136]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5934) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس شخص نے بری اور اچھی دونوں کو ملا کر نذر کی تھی جیسے روزہ جس کا رکھنا ایک اچھا اور ثواب کا کام ہے، لیکن کسی سے بات نہ کرنا یہ لغو اور بے کار چیز ہے، بلکہ گناہ ہے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بری باتوں کو ختم کر دیا، اور اچھی بات کے پورا کرنے کا حکم دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

   صحيح البخاريليتكلم وليستظل وليقعد وليتم صومه
   سنن أبي داودليتكلم وليستظل وليقعد وليتم صومه
   سنن ابن ماجهليتكلم وليستظل وليجلس وليتم صومه

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2136 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2136  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  جب نذر اس قسم کی ہو کہ اس میں بعض کام جائز ہوں اور بعض ناجائز تو اسے چاہیے کہ ناجائز کام چھوڑ دے اور جائز کام کی نذر پوری کرے۔
بات کرنے، بیٹھنے اور سائے میں آنے سے پرہیز درست نہیں تھا، اس لیے ان کاموں سے روک دیا گیا۔
روزہ شرعی عبادت تھی لہٰذا اسے پورا کرنے کا حکم دیا گیا۔

(2)
رہبانیت کا طریقہ اختیار کرنا شریعت اسلامی کے مزاج کے خلاف ہے خواہ اسے تصوف وغیرہ کا خوش نما نام ہی دے دیا جائے۔

(3)
  نذر ماننے والے اس صحابی کا نام حضرت ابو اسرائیل ہے۔ (صحیح البخاري، الأیمان والنذور، باب النذر فیما لا یملك، وفی معصیة، حدیث: 6704)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2136   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3300  
´معصیت کی نذر نہ پوری کرنے پر کفارہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران آپ کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو دھوپ میں کھڑا تھا آپ نے اس کے متعلق پوچھا، تو لوگوں نے بتایا: یہ ابواسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں، نہ سایہ میں آئے گا، نہ بات کرے گا، اور روزہ رکھے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے حکم دو کہ وہ بات کرے، سایہ میں آئے اور بیٹھے اور اپنا روزہ پورا کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3300]
فوائد ومسائل:
نماز میں لمبا قیام کرنا اور روزہ رکھنا افضل ترین عبادات ہیں۔
علاوہ ازیں مذکورہ امور اوہام یا شیطانی اغوا ہیں۔
ان کو عبادت فضیلت یا ولایت سمجھنا خالص جہالت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3300   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6704  
6704. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دفعہ نبی ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک آپ نے ایک آدمی کھڑے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے کہا: یہ ابو اسرائیل ہے۔ اس نے نذر مانی تھی کہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں، نہ سایہ لے گا اور نہ کسی سے گفتگو ہی کرے گا نیز روزے سے ہوگا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے کہو کہ گفتگو کرے۔ سایہ لے بیٹھ جائے اور روزہ پورا کرے۔عبدالوہاب نے کہا: ہمیں ایوب نے حضرت عکرمہ کے ذریعے سے نبی ﷺ سے خبر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6704]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے اس شخص کی ان غلط قسموں کو تڑوا دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6704   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6704  
6704. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دفعہ نبی ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک آپ نے ایک آدمی کھڑے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے کہا: یہ ابو اسرائیل ہے۔ اس نے نذر مانی تھی کہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں، نہ سایہ لے گا اور نہ کسی سے گفتگو ہی کرے گا نیز روزے سے ہوگا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے کہو کہ گفتگو کرے۔ سایہ لے بیٹھ جائے اور روزہ پورا کرے۔عبدالوہاب نے کہا: ہمیں ایوب نے حضرت عکرمہ کے ذریعے سے نبی ﷺ سے خبر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6704]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ دھوپ میں کھڑے رہنا، سایہ نہ لینا، گفتگو نہ کرنا طاعت نہیں اور جو طاعت نہ ہو وہ معصیت ہوتی ہے جبکہ معصیت کی نذر کو پورا کرنا درست نہیں۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مباح شے یا اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سکوت اختیار کرنا طاعت نہیں، اسی طرح دھوپ میں بیٹھے رہنا طاعت نہیں۔
طاعت وہ ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہو۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرطبی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس واقعے سے عدم کفارہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ معصیت کے متعلق اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارے کا حکم نہیں دیا۔
(فتح الباري: 719/11)
لیکن ہمارے رجحان کے مطابق جس نے کوئی غیر معین یا معصیت و نافرمانی یا ایسے کام کی نذر مانی جس کی اس میں طاقت نہیں تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہے۔
دلائل حسب ذیل ہیں:
٭ کعبے کے لیے اپنے تمام مال وقف کرنے والے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ وہ قسم کا کفارہ دے۔
(السنن الکبریٰ للبیهقي: 65/1)
٭ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔
(صحیح مسلم، النذر، حدیث: 4253 (1645)
٭ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ معصیت و نافرمانی کے کام میں نذر جائز نہیں اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔
(سنن أبي داود، الأیمان والنذور، حدیث: 3290)
ان دلائل کے پیش نظر مذکورہ نذر میں قسم توڑنے کا کفارہ ادا کر دینا چاہیے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6704   

حدیث نمبر: 2136M
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَنْبَةَ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ ، عَنْ وُهَيْبٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" نَحْوَهُ وَاللَّهُ أَعْلَمُ".
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی مرفوعاً روایت آئی ہے۔ «واللہ اعلم» ۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2136M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأیمان والنذور 31 (6704)، سنن ابی داود/الأیمان 23 (3300)، (تحفة الأشراف: 5991)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح