عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بعض آدمی اپنے گھر والوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں جس میں فراخی ہوتی ہے، اور بعض آدمی تنگی کے ساتھ دیتے ہیں تب یہ آیت اتری: «من أوسط ما تطعمون أهليكم»”مسکینوں کو وہ کھانا دو جو درمیانی قسم کا اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2113]
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سفيان بن عينة مدلس وعنعن ولا ينفعه كونه لا يدلس إلا عن ثقة مدلس وغير مدلسٍ كما حققته في تخريج النهاية في الفتن والملاحم (ح1030) يسر اللّٰه لنا طبعه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 454
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2113
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، حدیث: 2113، وصحیح ابن ماجة، رقم: 1730، وسنن ابن ماجة بتحقیق محمود حسن نصار، رقم: 2113) بہر حال کھانے کی کوئی خاص مقدار یا معیار مقرر نہیں بلکہ گھر میں عام طور پر جیسا کھانا تیار ہوتا ہے اسی معیار اور مقدار کے مطابق دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلا دیا جائے۔ جب مہمان آئیں تو بہتر کھانا تیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعض اوقات معمول سے کم درجے کا کھانا بھی کھا لیا جاتا ہے۔ کفارے میں نہ تو مہمانوں والا پر تکلف کھانا دینا مطلوب ہے نہ بالکل ادنیٰ درجے کا جیسے گھر میں بعض اوقات اچار یا چٹنی سے بھی گزارہ کر لیا جاتا ہے۔ بلکہ ہر شخص کے اکثر ایام کے معمول کا لحاظ رکھتے ہوئے کھانا کھلایا جائے۔ واللہ أعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2113