الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
31. بَابُ : طَلاَقِ الْعَبْدِ
31. باب: غلام کی طلاق کا بیان۔
حدیث نمبر: 2081
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَيُّوبَ الْغَافِقِيِّ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ سَيِّدِي زَوَّجَنِي أَمَتَهُ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنِي وَبَيْنَهَا، قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُزَوِّجُ عَبْدَهُ أَمَتَهُ، ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا، إِنَّمَا الطَّلَاقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے مالک نے اپنی لونڈی سے میرا نکاح کر دیا تھا، اب وہ چاہتا ہے کہ مجھ میں اور میری بیوی میں جدائی کرا دے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور فرمایا: لوگو! تمہارا کیا حال ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنے غلام کا نکاح اپنی لونڈی سے کر دیتا ہے، پھر وہ چاہتا ہے کہ ان دونوں میں جدائی کرا دے، طلاق تو اسی کا حق ہے جو عورت کی پنڈلی پکڑے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2081]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6219، ومصباح الزجاجة: 734) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں ابن لہیعہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد ومتابعات کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے)

وضاحت: ۱؎: یعنی جو اس سے صحبت کرتا ہو یعنی شوہر کے اختیار میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال البوصيري: ’’ ھذا إسناد ضعيف لضعف ابن لھيعة ‘‘
وللحديث شواھد ضعيفة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 453

   سنن ابن ماجهالطلاق لمن أخذ بالساق

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2081 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2081  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محقیقین نے اسے شواہد کی وجہ سے حسن قرار دیا ہے‘ نیز ہمارے شیخ نے بھی اس کے شواہد کا تذکرہ کیا ہے۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت دیگر شواہد کی بنا پر حسن بن جاتی ہے جو علمائے محققین کے نزدیک قابل عمل اور قابل حجت ہوتی ہے تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواءالغليل: 7/ 108، 109، 110)

(2)
  غلام کو نکاح کرنے کے لیے آقا کی اجازت کی ضرورت ہے لیکن جب نکاح ہو جائے تو آقا اس کا نکاح فسخ نہیں کر سکتا۔

(3)
طلاق دینا خاوند کا حق ہے، چاہےخاوند آزاد ہو یا غلام۔
کسی اور کو نہیں کہ اسےبیوی سے علیحدگی پر مجبور کرے۔

(4)
پنڈلی پکڑنا ان بے تکلفانہ تعلقات کی طرف اشارہ ہے جو خاوند اور بیوی میں ہوتے ہیں۔
آقا جب اپنی لونڈی کا نکاح کسی سے کر دے تو اسے یہ حق حاصل نہیں رہتا کہ لونڈی کے اعضائےمستورہ کو دیکھے یا چھوئے۔
یہ حق خاوند کا ہو جاتا ہے۔
اسی طرح طلاق بھی خاوند ہی کا حق ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2081