عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کی رات کو مسجد میں تھے کہ ایک شخص آ کر کہنے لگا اگر کوئی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے، پھر اس کو مار ڈالے، تو تم لوگ اس کو مار ڈالو گے، اور اگر زبان سے کچھ کہے تو تم اسے کوڑے لگاؤ گے، اللہ کی قسم میں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر ضرور کروں گا، آخر اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تب اللہ تعالیٰ نے لعان کی آیتیں نازل فرمائیں، پھر وہ آیا اور اس نے اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کرایا اور فرمایا: ”میرا گمان ہے کہ شاید اس عورت کا بچہ کالا ہی پیدا ہو“ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اس کے یہاں کالا گھونگھریالے بال والا بچہ پیدا ہوا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2068]
رجلا وجد مع امرأته رجلا فقتله قتلتموه وإن تكلم جلدتموه والله لأذكرن ذلك للنبي فذكره للنبي فأنزل الله آيات اللعان ثم جاء الرجل بعد ذلك يقذف امرأته فلاعن النبي بينهما وقال عسى أن تجيء به
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2068
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) یہ واقعہ غالباً وہی ہے جو گزشتہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خاوند کو اپنی بیوی پر شک تھا لیکن اسے اپنی آنکھوں سے ملوث نہیں دیکھا تھا۔ جب اس نے آنکھوں سے دیکھ لیا تو اللہ تعالی نے آیات نازل فرما دیں۔
(2) لعان کا حکم صرف مرد اور عورت سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص بیوی کے علاوہ کسی اور عورت پر الزام لگاتا ہے تو ضروری ہے کہ چار گواہ پیش کیے جائیں، اگر عدالت کی نظر میں ان کی گواہی قابل قبول ہوگی تو یہ مرد اور عورت بدکاری کی سزا کے مستحق ہوں گے، ورنہ یہ مدعی اوراس کے گواہ بھی (جو چارسے کم ہوں) قذف کی حد کے سزا وار ہوں گے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2068