عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، پھر عورتوں کا ذکر کیا، اور مردوں کو ان کے سلسلے میں نصیحت فرمائی، پھر فرمایا: ”کوئی شخص اپنی عورت کو لونڈی کی طرح کب تک مارے گا؟ ہو سکتا ہے اسی دن شام میں اسے اپنی بیوی سے صحبت کرے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1983]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الشمس (4942)، النکاح 93 (5204)، صحیح مسلم/صفة الجنة ونعیمہا 3 (2855)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن 79 (3343)، (تحفة الأشراف: 5294)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/17)، سنن الدارمی/النکاح 34 (2266) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تو پہلے ایسی سخت مار پھر اس کے بعد اتنا پیار بالکل نامناسب ہو گا، اور دل شرمائے گا، مناسب یہ ہے کہ امکانی حد تک عورت پر ہاتھ ہی نہ اٹھائے، اگر ایسا ہی سخت قصور کرے تو زبان سے خفا ہو، بستر الگ کر دے، اگر اس پر بھی نہ مانے تو ہلکی مار مارے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1983
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) عورتوں کو غلطی پر تنبیہ کرناضروری ہے لیکن یہ صرف زبانی ہونی چاہیے۔ اگر کوئی عورت زیادہ ہی بے پروا اور گستاخ ہو تو اس سے ناراض ہو جائے، یہ سزا کافی ہے۔ جسمانی سزا صرف اس وقت جائز ہےجب اس سوا چارہ نہ رہے۔
(2) ”لونڈی کی طرح پیٹنے“ کا یہ مطلب نہیں کہ لونڈی کو بے تحاشا مارنا جائز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح لوگ لونڈیوں کومارتے ہیں، آپ کو اپنی بیویوں سے ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔
(3) مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ ان کے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ ہے۔ اس چیز کو پیش نظر رکھتے ہو ئے عورتوں پر ناجائز سختی نہیں کرنی چا ہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1983
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 913
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان` سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے کوئی بھی اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے۔“(بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 913»
تخریج: «أخرجه البخاري، النكاح، باب ما يكره من ضرب النساء، حديث:5204.»
تشریح:
راویٔ حدیث: «حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ» عبد اللہ بن زمعہ بن اسود بن عبدالمطلب بن اسد بن عبدالعزیٰ اسدی۔ مشہور صحابی ہیں۔ ان کا شمار اہل مدینہ میں ہوتا ہے۔ یہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے روز شہید ہوئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 913
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3343
´سورۃ «والشمس وضحاھا» سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن اس اونٹنی کا (مراد صالح علیہ السلام کی اونٹنی) اور جس شخص نے اس اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے یہ آیت «إذ انبعث أشقاها» تلاوت کی، اس کام کے لیے ایک «شرِّ» سخت دل طاقتور، قبیلے کا قوی و مضبوط شخص اٹھا، مضبوط و قوی ایسا جیسے زمعہ کے باپ ہیں، پھر میں نے آپ کو عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: ”آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے اور جب کہ اسے توقع ہوتی ہے کہ وہ اس دن کے آخری حصہ میں (یعنی رات میں) اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3343]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث میں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹنے والے بدبخت کے ذکر کے ساتھ اسلام کی دو اہم ترین اخلاقی تعلیمات کا ذکر ہے۔ 1۔ اپنی شریک زندگی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور 2۔ مجلس میں کسی کی ریاح زورسے خارج ہو جانے پر نہ ہنسنے کا مشورہ، کس حکیمانہ پیرائے میں آپﷺ نے دونوں باتوں کی تلقین کی ہے! قابلِ غور ہے، فداہ أبي وأمي۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3343
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:579
579- سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوسنا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا تذکرہ کیا۔ جس نے حضرت (یونس علیہ السلام) کی اونٹنی کے پاؤں کاٹےتھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے ایک ایسا شخص آگے بڑھا جو اپنی قوم میں صاحب حیثیت تھا۔جس طرح ابوزمعہ ہے۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ”تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کی طرف جاتا ہے اوراسے یوں مارتا ہےجیسے غلام کو ماراجاتاہے۔پھر وہ دن کے آخری حصے میں اسے گلے لگالیتا ہے۔“ راوی بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے کسی کی ہوا خارج ہونے پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:579]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک ہی مجلس میں مختلف قسم کے مسائل پر بحث کرنا درست ہے، موجودہ دور میں وہی کامیاب خطیب سمجھا جاتا ہے جو گھنٹہ دو گھنٹے ایک ہی موضوع پر بحث کرے، اور ایک ہی موضوع پر بیسیوں آیات اور بیسیوں احادیث اور کئی ایک واقعات سنا دے۔ اس انداز میں فائدہ کم ہے اور محنت زیادہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز خطابت عموماً متروک نظر آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پچاس پچاس سال تک عوام اہل علم کو سنتے رہتے ہیں لیکن وہ مسائل جن کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے، افسوس کہ ان میں ناکام نظر آتے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 579
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6042
6042. حضرت عبداللہ بن زمعہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے لوگوں کو ہوا خارج ہونے پر ہنسنے سے منع کیا۔ نیز فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو نر حیوان جیسی مار کیوں مارتا ہے پھر شاید اس کو بغل میں لے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6042]
حدیث حاشیہ: گوز آنا ایک فطری امر ہے جو ہر انسان کے لئے لازم ہے، پھر ہنسنا انتہائی حماقت ہے۔ اکثر چھوٹے لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ دوسرے کے گوز کی آواز سن کر ہنستے اورمذاق بنا لیتے ہیں۔ یہ حرکت انتہائی مذموم ہے۔ ایسے ہی اپنی عورت کو جانوروں کی طرح بے تحاشا مارنا کسی بدعقل ہی کا کام ہو سکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6042
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5204
5204. سیدنا عبداللہ بن زمعہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص بھی اپنی بیوی کو اس طرح نہ پیٹے جس طرح غلام کو پیٹا جاتا ہے پھر دوسرے دن اس سے ہم بستری بھی کرنی ہوتی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5204]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث کے مطابق بیوی کو مارنا درست نہیں جبکہ قرآن میں اس کی اجازت دی گئی ہے؟ ان میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ ایسی مار نہ ہو جس سے زخم آ جائیں، چنانچہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ اگر عورتیں کھلی بے حیائی کریں تو تم انھیں بستروں سے علیحدہ کر دو اور ایسی مار دو کہ انھیں چوٹ نہ آئے۔ (جامع الترمذی، الرضاع، حدیث: 1163) (2) بہرحال چند شرائط کے ساتھ عورتوں کو مارنے کی اجازت ہے۔ ٭اسے غلاموں کی طرح بے تحاشا نہ مارے۔ ٭ بیوی کے منہ پر نہ مارے۔ ٭ایسی مار نہ ہو جس سے کوئی زخم آ جائے یا کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جائے۔ ان حدود و قیود کے ساتھ خاوند کو مجبوری کی حالت میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (3) واضح رہے کہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر خاوند اپنی بیوی کو مار سکتا ہے: ٭نماز چھوڑنے پر٭ غسل بروقت نہ کرنے پر٭ زینت ترک کرنے پر٭ اپنے پاس بلانے کے باوجود اس کے نہ آنے پر٭ بلا اجازت گھر سے باہر جانے پر۔ اس بنا پر بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے خاوند کی رمز شناس ہو اور ہر حکم کی اطاعت گزار ہو بشرطیکہ وہ کام شریعت کے خلاف نہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5204
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6042
6042. حضرت عبداللہ بن زمعہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے لوگوں کو ہوا خارج ہونے پر ہنسنے سے منع کیا۔ نیز فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو نر حیوان جیسی مار کیوں مارتا ہے پھر شاید اس کو بغل میں لے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6042]
حدیث حاشیہ: (1) اس پوری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین امور ذکر کیے ہیں: حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو مارنے کا واقعہ، دوسرا ہوا خارج ہونے پر ہنسی کا واقعہ اور تیسرا بیوی کو مارنے پر تنبیہ۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث4942) کسی کی ہوا خارج ہونے پر ہنسنے میں استہزا اور مذاق کا پہلو نمایاں ہے اور آیت کریمہ میں بھی استہزا ومذاق کرنے کی ممانعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہنسنے سے منع فرمایا کیونکہ ہوا کا خارج ہونا انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ (2) کچھ لوگ اختیار کے ساتھ زور سے ہوا خارج کرتے ہیں، ایسا کرنا بھی بہت معیوب ہے۔ اگرچہ ہوا خارج ہونا ایک فطری امر ہے لیکن اس پر ہنسنا انتہائی حماقت ہے۔ بہرحال یہ حرکت بہت مذموم ہے۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6042