الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
40. بَابُ : الرَّجُلِ يُسْلِمُ وَعِنْدَهُ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعِ نِسْوَةٍ
40. باب: آدمی اگر اسلام لائے اور اس کے نکاح میں چار سے زائد عورتیں ہوں تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 1953
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ أَسْلَمَ غَيْلَانُ بْنُ سَلَمَةَ وَتَحْتَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں سے چار کو رکھو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1953]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/النکاح 32 (1128)، (تحفة الأشراف: 6949)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق 29 (76)، مسند احمد (2/13، 14، 44، 183) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس باب کی دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لیے چار سے زائد بیویاں ایک ہی وقت میں رکھنا حرام ہے، لیکن اس حکم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مستثنیٰ ہے، آپ کے حرم میں بیک وقت نو بیویاں تھیں، یہ رعایت خاص آپ کے لیے تھی، اور اس میں بہت سی دینی اور سیاسی مصلحتیں کار فرما تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہیں، غیلان بن سلمہ رضی اللہ عنہ ثقیف کے سرداروں میں سے تھے، فتح طائف کے بعد انھوں نے اسلام قبول کیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   جامع الترمذييتخير أربعا منهن
   سنن ابن ماجهخذ منهن أربعا
   بلوغ المراميتخير منهن اربعا

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1953 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1953  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ دونوں روایتوں کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے انہیں صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیئے:
(الموسوعة الحدیثة مسند الإمام أحمد: 8؍220، 224، و 9؍69 و إرواء الغلیل: 6؍291، 292، رقم: 1883، 1885)
بنا بریں مذکورہ روایتیں سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہیں۔

(2)
اگر کوئی شخص اسلام سے پہلے چار سے زیادہ عورتوں سے نکاح کر چکا ہو تو اسلام قبول کرنے کے بعد اسے چار عورتیں نکاح میں رکھنے کا حق ہے۔
باقی عورتوں کو طلاق دینا ضروری ہے۔

(3)
چار سے زیادہ عورتیں نکاح میں ہونے کی صورت میں مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جونسی چار عورتیں پسند کرے، انہیں نکاح میں رکھ لے۔
اس میں یہ شرط نہیں کہ جن سے پہلے نکاح ہوا ہو انہیں رکھا جائے یا بعد والیوں کو رکھا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1953   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 860  
´کفو (مثل، نظیر اور ہمسری) اور اختیار کا بیان`
سیدنا سالم نے اپنے باپ سے بیان کیا کہ غیلان بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اس وقت ان کی دس بیویاں تھیں۔ ان سب نے غیلان کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیلان سے فرمایا کہ ان میں سے چار کا انتخاب کر لو۔ اسے احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ بخاری، ابوزرعہ اور ابوحاتم نے اسے معلول کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 860»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، النكاح، باب ما جاء في الرجل يسلم وعنده عشر نسوة، حديث:1128، وابن ماجه، النكاح، حديث:1953، وأحمد:2 /13، 14، 44، 83، وابن حبان (الإحسان):6 /182، حديث:4145، والحاكم: 2 /192، وانظر علل الحديث لابن أبي حاتم:1 /400، الزهري عنعن، وللحديث شواهد ضعيفة.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔
اور ان محققین کی بحث سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۸ /۲۲۰‘ ۲۲۴‘ و:۹ /۶۹‘ وإرواء الغلیل:۶ /۲۹۱‘ ۲۹۶‘ رقم:۱۸۸۳‘ ۱۸۸۵) 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کے لیے چار سے زائد بیویاں ایک ہی وقت میں رکھنا حرام ہے اور یہ حکم متعدد روایات میں منقول ہے۔
نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں نوبیویاں تھیں تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص رعایت تھی کیونکہ اس میں بہت سی دینی اور سیاسی مصلحتیں تھیں۔
اور یہ رعایت خود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دی تھی‘ اس لیے اس پر اعتراض کرنا سراسر حماقت ہے۔
وضاحت: «حضرت غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ غین پر فتحہ اور یا ساکن ہے۔
ثقیف کے سرداروں میں سے تھے۔
فتح طائف کے بعد اسلام قبول کیا اور ہجرت نہیں کی۔
خوش الحان شاعر تھے۔
خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 860   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1128  
´اگر کوئی مسلمان ہو جائے اور اس کے عقد میں دس بیویاں ہوں تو وہ کیا کرے؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ ۱؎ ثقفی نے اسلام قبول کیا، جاہلیت میں ان کی دس بیویاں تھیں، وہ سب بھی ان کے ساتھ اسلام لے آئیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے کسی چار کو منتخب کر لیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1128]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
غیلان بن سلمہ ثقیف کے سرداروں میں سے تھے،
فتح طائف کے بعد انھوں نے اسلام قبول کیا۔

2؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لیے چارسے زائد بیویاں ایک ہی وقت میں رکھنا جائز نہیں،
لیکن اس حکم سے نبی اکرمﷺکی ذات گرامی مستثنیٰ ہے،
آپ کے حرم میں بیک وقت نوبیویاں تھیں،
یہ رعایت خاص آپ کے لیے تھی اوراس میں بہت سی دینی،
سیاسی،
مصلحتیں کارفرما تھیں آپ کے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہیں۔

3؎:
ابورغال کے بارے میں دومختلف روایتیں ہیں،
پہلی روایت یہ ہے کہ یہ طائف کے قبیلہ ثقیف کا ایک شخص تھا جس نے ابرہہ کی مکے کی جانب رہبری کی تھی وہ مغمس کے مقام پرمرا اور وہیں دفن کیا گیا اور اس کی قبر پر پتھراؤکرنا عام رسم بن گئی،
دوسری روایت ہے کہ ابورغال قوم ثمود کا وہ واحدشخص تھا جو ہلاکت سے بچ گیا تھا،
ثمود کی تباہی کے وقت وہ مکہ میں مقیم تھااور اس جگہ کی حرمت کے باعث محفوظ رہا تاہم مکہ سے نکلنے کے فوراً بعد مرگیا،
رسول اللہ ﷺجب اپنی فوج کے ساتھ الحجرکے مقام سے گزررہے تھے تو آپ نے یہ بات بیان فرمائی تھی،
الأغانی کی ایک حکایت میں ابورغال کو طائف کا بادشاہ اوربنوثقیف کا جدامجد بھی بیان کیا گیا ہے،
اس کے معاملے میں حافظ ابن قتیبہ اورمسعودی ایسے مصنف ایک اورروایت نقل کرتے ہیں کہ بنوثقیف ہی نے ابورغال کو جو ایک ظالم اوربے انصاف شخص تھا قتل کیاتھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1128