الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
34. بَابُ : يَحْرُمُ مِنَ الرِّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ
34. باب: رضاعت (دودھ پلانے) سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔
حدیث نمبر: 1938
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدَ عَلَى بِنْتِ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ:" إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، وَإِنَّهُ يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے نکاح کا مشورہ دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، اور رضاعت سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1938]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الشہادات 7 (2645)، النکاح 20 (5100)، صحیح مسلم/الرضاع 3 (1447)، سنن النسائی/النکاح 50 (3307)، (تحفة الأشراف: 5378)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/275)، 290، 329، 339، 346) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں سات ہیں۔ ۱- مائیں: ان میں ماں کی مائیں (نانیاں) اور ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں پردادیاں) اور ان سے آگے تک) شامل ہیں۔ ۲- بیٹیاں: ان میں پوتیاں، نواسیاں، اور پوتیوں، اور نواسیوں کی بیٹیاں نیچے تک شامل ہیں، زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی بیٹی میں شامل ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے، ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی میں شامل کرتے ہیں، اور اس نکاح کو حرام سمجھتے ہیں، البتہ امام شافعی کہتے ہیں کہ وہ شرعی بیٹی نہیں ہے، پس جس طرح «يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ» (سورة النساء: 11) میں داخل نہیں ہے اور بالاجماع وہ وارث نہیں ہے اسی طرح وہ «حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ» (سورة النساء: 23) والی آیت: «وَبَنَاتُكُمْ» میں داخل نہیں۔ ۳- بہنیں: حقیقی ہوں یا اخیافی (وہ بھائی بہن جن کے باپ الگ الگ اور ماں ایک ہو) یا علاتی (ماں کی طرف سے سوتیلا بھائی یا سوتیلی بہن)۔ ۴- پھوپھیاں: اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانی دادی کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ ۵- خالائیں: اس میں ماں کی سب مونث اصول یعنی نانی دادی کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ ۶- بھتیجیاں: اس میں تینوں قسم کے بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی و فروعی) شامل ہیں۔ ۷- بھانجیاں اس میں تینوں قسموں کی بہنوں کی اولاد۔ مذکورہ بالا رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں رضاعت سے بھی یہ سارے رشتے حرام ہو جاتے ہیں۔ رضاعی محرمات کی بھی سات قسمیں ہیں: ۱- رضاعی مائیں ۲- رضاعی بیٹیاں ۳- رضاعی بہنیں ۴- رضاعی پھوپھیاں ۵- رضاعی خالائیں ۶- رضاعی بھتیجیاں ۷- رضاعی بھانجیاں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

   صحيح البخاريابنة أخي من الرضاعة
   صحيح البخاريبنت أخي من الرضاعة
   صحيح مسلميحرم من الرضاعة ما يحرم من الرحم
   سنن النسائى الصغرىيحرم من الرضاع ما يحرم من النسب
   سنن النسائى الصغرىابنة أخي من الرضاعة
   سنن ابن ماجهيحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب
   بلوغ المرام إنها لا تحل لي إنها ابنة أخي من الرضاعة ويحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1938 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1938  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سید الشہداء حضرت حمزہ رسول اللہ ﷺ کے سگے چچا تھے، اس لیے ان کی بیٹی سے نکاح جائز ہونا چاہیے تھا۔
یہی سوچ کر حضرت علی نے یہ تجویز پیش فرما دی لیکن رسول اللہ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ نسبی طور پر یہ رشتہ ممکن تھا لیکن رضاعی طور پر حرام ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔

(2)
حضرت حمزہ کو ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔
اسی نے چند دن رسول اللہ ﷺ کو بھی دودھ پلایا تھا۔ (لمعات، شرح مشکاۃ، کتاب النکاح، باب المحرمات)
اس طرح حضرت حمزہ نبی ﷺ کے رضاعی بھائی بن گئے اور ان کی بیٹی آپﷺ کی رضاعی بھتیجی ہوئی۔

(3)
اس خاتون کا نام حضرت فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ عنہا تھا۔ (إنجاح الحاجة حاشیة سنن ابن ماجة از عبدالغنی دھلوی)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1938   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3308  
´رضاعی بھائی کی بیٹی (سے شادی) کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے شادی کر لینے کی ترغیب دی گئی، تو آپ نے فرمایا: وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے اور رضاعت (دودھ پینے) سے ہر وہ رشتہ، ناطہٰ حرام ہو جاتا ہے جو رشتہ، ناطہٰ نسب سے حرام ہوتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3308]
اردو حاشہ:
بھتیجی محرمات میں داخل ہے‘ خواہ حقیقی بھائی کی بیٹی ہو یا رضاعی بھائی کی۔ بہن‘ بھائی اور ان کی اولاد سے نکاح قطعاً حرام ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3308   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2645  
2645. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کی صاحبزادی کے متعلق فرمایا: اس سے نکاح کرنا میرے لیے جائز نہیں کیونکہ جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔ یہ لڑکی تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2645]
حدیث حاشیہ:
رشتہ میں بھی رضاعت کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
تشریح:
حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ آپ کے چچا تھے۔
ہر دو کی عمروں میں کوئی خاص فرق نہ تھا۔
اس لیے جس وقت آنحضرت ﷺ دودھ پیتے تھے حضرت حمزہ ؓ کے بھی دودھ پینے کا وہی زمانہ تھا اور دونوں حضرات نے ابولہب کی باندی ثوبیہ کا دودھ پیا تھا۔
حضرت حمزہ ؓ کی لڑکی جن کا نام امامہ یا عمارہ بتایا جاتا ہے، کے متعلق یہ حدیث آپ نے اسی بنیاد پر بیان کی تھی۔
قسطلانی نے کہا، ان میں سے چار رشتے مستثنیٰ ہیں جونسب سے حرام ہوتے ہیں، لیکن رضاع سے حرام نہیں ہوتے۔
ان کا ذکر کتاب النکاح میں آئے گا۔
إن شاءاللہ تعالیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2645   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5100  
5100. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سے عرض کی گئی: آپ سیدنا حمزہ ؓ کی بیٹی سے نکاح کیوں نہیں کرلیتے؟ آپ نے فرمایا: وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، یعنی رضاعی بھتیجی ہے۔ بشر بن عمر نے کہا: ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں قتادہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے جابر بن زید سے اسی طرح اس حدیث کو سنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5100]
حدیث حاشیہ:
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ثوبیہ کا دودھ پیا تھا جو ابولہب کی لونڈی تھی اس لئے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپ کے دودھ بھائی قرار پائے۔
ایک دن ابوجہل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دی اور گالی بھی دی۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لونڈی نے یہ واقعہ حضرت امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کو سنایا۔
وہ غصہ میں ابوجہل کے سامنے آئے اور کمان سے اس کا سر توڑ ڈالا اور کہا کہ لے میں خود مسلمان ہوتا ہوں تو کر لے کیا کرنا چاہتا ہے چنانچہ اسی دن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔
یہ چھٹے سال نبوت کا واقعہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمر میں بڑے تھے، احد میں شہید ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5100   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2645  
2645. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کی صاحبزادی کے متعلق فرمایا: اس سے نکاح کرنا میرے لیے جائز نہیں کیونکہ جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔ یہ لڑکی تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2645]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ اور حضرت حمزہ ؓ نے بچپن میں ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ کا دودھ پیا تھا، اس لیے نسب کے اعتبار سے حضرت حمزہ ؓ آپ کے چچا تھے لیکن رضاعت کے لحاظ سے آپ کے بھائی تھے، اس لیے رضاعی بھتیجی سے نکاح جائز نہیں۔
(2)
واضح رہے کہ دودھ پلانے والی عورت اور اس کے محارم کا نکاح دودھ پینے والے سے جائز نہیں جیسا کہ نسب میں ماں اور اس کے محارم سے نکاح جائز نہیں۔
بچے کی طرف سے یہ عموم نہیں ہے کیونکہ اگر کسی عورت نے کسی بچے کو دودھ پلایا ہے تو بلاشبہ وہ اس کی ماں بن جاتی ہے لیکن بچے کے باپ کے لیے اس سے نکاح کرنا جائز ہے، نیز چار رشتے ایسے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں لیکن رضاعت کی وجہ سے حرام نہیں ہوتے جن کی تفصیل ہم کتاب النکاح میں ذکر کریں گے۔
(3)
امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جو واقعات شہرت پا جائیں، ان سے حکم ثابت کیا جا سکتا ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے دودھ کے متعلق خبر دی کہ میں نے اور حضرت حمزہ ؓ نے ثوبیہ کا دودھ پیا ہے۔
اس کی بنیاد بھی لوگوں میں شہرت تھی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2645   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5100  
5100. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سے عرض کی گئی: آپ سیدنا حمزہ ؓ کی بیٹی سے نکاح کیوں نہیں کرلیتے؟ آپ نے فرمایا: وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، یعنی رضاعی بھتیجی ہے۔ بشر بن عمر نے کہا: ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں قتادہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے جابر بن زید سے اسی طرح اس حدیث کو سنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5100]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
اللہ کے رسول! رشتے ناتے کے لحاظ سے آپ کا رجحان قریش کی طرف ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آپ کے پاس کچھ ہے جسے میں پسند کروں۔
انھوں نے کہا:
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی دختر سے شادی کر لیں جو آپ کے چچا کی بیٹی ہے۔
آپ نے فرمایا:
وہ تو میرے لیے جائز نہیں کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔
(صحيح مسلم، الرضاع، حديث: 3581 (1446) (2)
حضرت حمزہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو لہب کی لونڈی حضرت ثوبیہ کا دودھ پیا تھا، اس لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ کے رضاعی بھائی تھے اور نسب کے اعتبار سے آپ کے چچا تھے۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی ثوبیہ لونڈی کا دودھ پیا تھا وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
(صحيح البخاري، النكاح، حديث: 5101) (3)
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے نام کے متعلق مختلف اقوال منقول ہیں:
امامہ، عمارہ، سلمیٰ، عائشہ، فاطمہ، امۃاللہ اور یعلی وغیرہ۔
بعض مؤرخین نے ام فضل بھی ذکر کیا ہے لیکن یہ اس کی کنیت ہے۔
(فتح الباري: 178/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5100