عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے قبیلہ بنی جشم کی ایک عورت سے شادی کی، تو لوگوں نے (جاہلیت کے دستور کے مطابق) یوں کہا: «بالرفاء والبنين»”میاں بیوی میں اتفاق رہے اور لڑکے پیدا ہوں“ تو آپ نے کہا: اس طرح مت کہو، بلکہ وہ کہو، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم بارك لهم وبارك عليهم»”اے اللہ! ان کو برکت دے اور اس برکت کو قائم و دائم رکھ“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1906]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10014)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/النکاح 73 (3373)، مسند احمد (1/201، 3/ 451) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (3373) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 448
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1906
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) شادی کے موقع پر دلہا اور دلہن کو مبارک باد دینا اور ان کے حق میں دعائے خیر کرنا مسنون ہے۔
(2) مبارک باد اور دعائے خیر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ مبارک الفاظ کہے جائیں جو نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوئےہیں۔
(3) غیر اسلامی رسمیں اگرچہ بظاہر بے ضرر ہوں اور ان میں کوئی خرابی محسوس نہ ہوتی ہو پھر بھی انہیں ترک کرکے اسلامی رسمیں اختیار کرنا مناسب ہے تاکہ غیر مسلموں سے امتیاز باقی رہے، اس لیے ایسے رسم و رواج سے اجتناب انتہائی ضروری ہے جو اسلامی آداب معاشرت کے منافی ہیں یا غیر اسلامی عقائد سے تعلق رکھتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1906