عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے کسی عورت سے شادی کی، اور مہر کی تعین اور دخول سے پہلے ہی اس کا انتقال ہو گیا، تو انہوں نے کہا: اس عورت کو مہر ملے گا، اور میراث سے حصہ ملے گا، اور اس پہ عدت بھی لازم ہو گی، تو معقل بن سنان اشجعی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، جب آپ نے بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے سلسلہ میں ایسے ہی فیصلہ کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1891]
وضاحت: ۱؎: یہ روایت مختصر ہے، بعض حدیثوں میں یوں ہے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس عورت کو مہر مثل ملے گا، یعنی اس کے کنبے کی عورتوں کا جو مہر ہو گا وہی اس کو دلایا جائے گا، نہ کم اور نہ زیادہ، پھر معقل رضی اللہ عنہ نے گواہی دی تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نہایت خوش ہوئے کہ ان کا فیصلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہوا، علامہ ابن القیم نے کہا کہ اس فتوے کے معارض کوئی فتوی نہیں تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1891
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) نکاح ہو جانے سے عورت کو بیوی والے تمام حقوق حاصل ہو جاتے ہیں اگرچہ رخصتی نہ ہوئی ہو۔
(2) خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کے ترکے میں سے حصہ ملتا ہے جب کہ نکاح ہو چکا ہو، خواہ رخصتی نہ ہوئی ہو۔
(3) عورت کی رخصتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اسے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن عدت گزارنا ضروری ہے، البتہ اگر رخصتی سے پہلے طلاق ہو جائے تو عورت کو عدت گزارنے کی ضرورت نہیں۔ (الأحزاب: 49)
(4) مذکورہ حدیث میں حق مہر کی مقدار کا تعین عورت کے خاندان کی دوسری خواتین کے حق مہر کی روشنی میں کیا جائے گا، یعنی عورت کے خاندان میں عورتوں کا جتنا حق مہر عموماً مقرر ہوتا ہے اسے دیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس معاملے میں یہی فیصلہ دیا تھا۔ جامع ترمذی میں ان کے فیصلے کے یہ الفاظ مروی ہیں: (لَهَا مِثْلُ صَدَاقِ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ وَلَا شَطَطَ ......) ”اسے اپنے خاندان کی عورتوں جیسا مہر ملے گا نہ زیادہ نہ کم اور اس پر عدت ہے اور اس کے لیے میراث ہے۔“(جامع الترمذي، النکاح، باب ما جاء فی الرجل یتزوج المراۃ فیموت عنها قبل ان یفرض لها، حدیث: 1145) تاہم اگر حق مہر مقرر ہو اور خلوت سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے تو پھر آدھا حق مہر ادا کیا جائے گا۔ (البقرۃ: 237)
(5) اگر نکاح کے وقت حق مہر کا تعین نہ ہو تو بھی نکاح صحیح ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ اسی وقت تعین کر لیا جائے۔ حدیث: 1889 میں مذکور واقعہ میں صحیح بخاری کی روایت کے مطابق نبی ﷺ نے اس شخص سے فرمایا تھا: ”کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے جو تو اسے حق مہر کے طور پر ادا کرے۔“(صحیح البخاري، النکاح، باب السلطان ولی .....، حدیث: 5135)
(6) جس مسئلہ میں قرآن و حدیث کی واضح ہدایت معلوم نہ ہو اس میں عالم اجتہاد سے مسئلہ بتا سکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے یہ مسئلہ اجتہاد کر کے بتایا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ نبی ﷺ نے حضرت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہی فیصلہ فرمایا تھا تو انہیں بہت خوشی ہوئی۔ (سنن ابی داؤد، النکاح، باب فیمن تزوج ولم یسم لها صداقا حتی مات، حدیث: 2114)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1891
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1145
´آدمی شادی کرے اور مہر مقرر کرنے سے پہلے مر جائے تو کیا حکم ہے؟` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک عورت سے شادی کی لیکن اس نے نہ اس کا مہر مقرر کیا اور نہ اس سے صحبت کی یہاں تک کہ وہ مر گیا، تو ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: اس عورت کے لیے اپنے خاندان کی عورتوں کے جیسا مہر ہو گا۔ نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ اسے عدت بھی گزارنی ہو گی اور میراث میں بھی اس کا حق ہو گا۔ تو معقل بن سنان اشجعی نے کھڑے ہو کر کہا: بروع بنت واشق جو ہمارے قبیلے کی عورت تھی، کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فیصلہ فرمایا تھا جیس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1145]
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ عورت کا شوہرعقد کے بعد مہرکے مقررکرنے سے پہلے مرجائے تو وہ پورے مہرکی مستحق ہوگی اگرچہ دخول اورخلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1145