ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت عورت کا نکاح نہ کرائے، اور نہ عورت خود اپنا نکاح کرے، پس بدکار وہی عورت ہے جو اپنا نکاح خود کرتی ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1882]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1454، ومصباح الزجاجة: 672) (صحیح)» ( «الزانیہ» کے جملہ کے علاوہ حدیث صحیح ہے، نیز ملا حظہ ہو: الإروا ء: 1841)
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 839
´(نکاح کے متعلق احادیث)` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہ کوئی عورت دوسری عورت کا (ولی بن کر) نکاح کرے اور نہ خود اپنا نکاح کرے۔“ اسے ابن ماجہ اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 839»
تخریج: «أخرجه ابن ماجه، النكاح، باب لا نكاح إلا بولي، حديث:1882، والدارقطني:3 /227، وللحديث شواهد عند البيهقي:7 /110 وغيره.»
تشریح: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کی ولی نہیں بن سکتی‘ اور نہ خود ولی بن کر اپنا نکاح کرنے کی مجاز ہے۔ جمہور علماء کی رائے یہی ہے۔ مگر احناف کہتے ہیں کہ عاقلہ بالغہ خاتون اپنا بھی اور اپنی نابالغہ بچی کا بھی نکاح کر سکتی ہے اور دوسرے کی وکیل نکاح بھی بن سکتی ہے‘ البتہ اگر کہیں غیرکفو سے نکاح کر لے تو ولی کو دخل اندازی کا اختیار ہے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صرف کم ذات عورت اپنا نکاح خود کر سکتی ہے‘ کسی معزز خاتون کے لیے یہ جائز نہیں‘ مگر اس کے بارے میں جمہور علماء کی رائے مضبوط ہے۔ (سبل السلام)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 839