سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجرد والی زندگی (بے شادی شدہ رہنے) سے منع فرمایا۔ زید بن اخزم نے یہ اضافہ کیا ہے: اور قتادہ نے یہ آیت پڑھی، «ولقد أرسلنا رسلا من قبلك وجعلنا لهم أزواجا وذرية»(سورة الرعد: 38)”ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور اولاد بنائیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1849]
وضاحت: ۱؎: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے یا کافروں کے اعتراض رد کرتا ہے کہ اگر آپ نے کئی شادیاں کیں تو اولاً یہ نبوت کے منافی نہیں ہے، اگلے بہت سے انبیاء ایسے گزرے ہیں جنہوں نے کئی کئی شادیاں کیں، ان کی اولاد بھی بہت تھی، بلکہ بنی اسرائیل تو سب یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں جن کے بارہ بیٹے تھے، اور کئی بیویاں تھیں، اور ابراہیم علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں، ایک سارہ، دوسری ہاجرہ، اور سلیمان علیہ السلام کی (۹۹) بیویاں تھیں، الروضہ الندیہ میں ہے کہ مانویہ اور نصاری نکاح نہ کرنے کو عبادت سمجھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین میں اس کو باطل کیا، فطرت اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان نکاح کرے، اور اپنے بنی نوع کی نسل کو قائم رکھے، اور بڑھائے، البتہ جس شخص کو بیوی رکھنے کی قدرت نہ ہو اس کو اکیلے رہنا درست ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1849
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) بے نکاح رہنے کو نیکی سمجھنا غلط ہے خواہ یہ تصوف کے نام پر ہو یا قلندری کے نام پر یا کسی اور نام سے۔ نکاح تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ انبیائے کرام نوری مخلوق نہیں بلکہ اشرف المخلوقات انسان ہیں، اس لیے وہ نکاح بھی کرتے تھے اور ان کی اولاد بھی ہوتی تھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1849
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3216
´مجرد (عورتوں سے الگ تھلگ) رہنے کی ممانعت کا بیان۔` سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجرد (غیر شادی شدہ) رہ کر زندگی گزارنے سے منع فرمایا۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: قتادہ اشعث سے زیادہ ثقہ اور مضبوط حافظہ والے تھے لیکن اشعث کی حدیث صحت سے زیادہ قریب لگتی ہے ۱؎ واللہ أعلم۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3216]
اردو حاشہ: حضرت قتادہ نے یہ روایت عن الحسن عن سمرۃ بن جندب کی سند سے بیان کی ہے، یعنی اسے سمرہ کی حدیث بنایا ہے۔ لیکن یہ ان کی خطا ہے جو انتہائی ثقہ سے بھی ممکن ہے۔ جبکہ اشعث نے صحیح سند بیان کی ہے۔ گویا یہ حدیث مسند عائشہ ہے۔ واللّٰہ تعالیٰ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3216