براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں آیت کریمہ: «ومما أخرجنا لكم من الأرض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون»(سورة التوبة: 267) انصار کے بارے میں نازل ہوئی، جب باغات سے کھجور توڑنے کا وقت آتا تو وہ اپنے باغات سے کھجور کے چند خوشے (صدقے کے طور پر) نکالتے، اور مسجد نبوی میں دونوں ستونوں کے درمیان رسی باندھ کر لٹکا دیتے، پھر فقراء مہاجرین اس میں سے کھاتے، انصار میں سے کوئی یہ کرتا کہ ان خوشوں میں خراب کھجور کا خوشہ شامل کر دیتا، اور یہ سمجھتا کہ بہت سارے خوشوں میں ایک خراب خوشہ رکھ دینا جائز ہے، تو انہیں لوگوں کے سلسلہ میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون»”قصد نہ کرو خراب کا اس میں سے کہ اسے خرچ کرو“ اور تم اسے خود ہرگز لینے والے نہیں ہو، الا یہ کہ چشم پوشی سے کام لو، اگر تمہیں کوئی ایسے خراب مال سے تحفہ بھیجے تو تم کبھی بھی اس کو قبول نہ کرو گے مگر شرم کی وجہ سے، اور دل میں غصہ ہو کر کہ اس نے تمہارے پاس ایسی چیز بھیجی ہے جو تمہارے کام کی نہیں ہے، اور تم جان لو کہ اللہ تمہارے صدقات سے بے نیاز ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1822]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1822
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جب باغ میں پھل اترے تو اس میں سے کچھ نہ کچھ غریبوں کو بھی دینا چاہیے۔
(2) صدقے کے طور پر حتی الامکان اچھی چیز دینی چاہیے۔
(3) اللہ تعالیٰ نیتوں سے باخبر ہے اس لیے نیکی کو بہتر انداز سے انجام دینا چاہیے۔
(4) صدقات و خیرات کی اللہ تعالیٰ کو ضرورت نہیں یہ تو اس کا احسان ہے کہ ہم اپنے دوستوں اور اقارب کو دیتے ہیں اور اللہ اسے اپنے لیے شمار کر کے اس پر بہت زیادہ ثواب دے دیتا ہے۔
(5) ثواب حاصل کرنا بندے کی ضرورت ہے، لہٰذا اللہ کو راضی کرنے کے لیے خلوص سے اچھا عمل کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1822