ابوسیارہ متقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس شہد کی مکھیاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا دسواں حصہ بطور زکاۃ ادا کرو“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ جگہ میرے لیے خاص کر دیجئیے، چنانچہ آپ نے وہ جگہ میرے لیے خاص کر دی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1823]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12055، ومصباح الزجاجة: 649)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/236) (حسن)» (سند میں سلیمان بن موسیٰ ضعیف ہے، سلیمان کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے، موت سے کچھ پہلے مختلط ہو گئے تھے، لیکن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حسن ہے، کماسیأتی)
وضاحت: ۱؎: یعنی بطور حفاظت و نگرانی اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے جاگیر میں دے دی۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف لانقطاعه و قال البخاري في ھذا الحديث: ’’ ھو حديث مرسل،سليمان (بن موسي) لم يدرك أحدًا من أصحاب النبي ﷺ ‘‘ (علل الترمذي الكبير 1/ 313 باب في زكوة العسل) و الحديث الآتي (الأصل: 1824،وسنده حسن) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 445
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1823
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) صحابی کے پاس شہد کی مکھیاں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بعض درختوں پر مکھیاں شہد کا چھتہ لگایا کرتی ہیں۔ خاص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان چھتوں کو ان کی ملکیت قرار دے دیا تاکہ کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیر ان درختوں کے چھتوں سے شہد نہ نکالے۔ جو درخت کسی کی ملکیت نہ ہوں، ان پر لگے ہوئے چھتے سے جو شخص چاہے شہد نکال سکتا ہے۔ شہد کی زکاۃ دسواں حصہ ہے۔ اگر دس مشکیزے شہد ہو تو ایک مشکیزہ زکاۃ ادا کرے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1823