الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
13. بَابُ : صَدَقَةِ الْغَنَمِ
13. باب: بکریوں کی زکاۃ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1807
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ، فَإِنْ زَادَتْ، فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، لَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَكُلُّ خَلِيطَيْنِ يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَيْسَ لِلْمُصَدِّقِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا تَيْسٌ، إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَّدِّقُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس سے لے کر ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری زکاۃ ہے، اگر ایک سو بیس سے ایک بھی زیادہ ہو جائے تو دو سو تک دو بکریاں ہیں، اور اگر دو سو سے ایک بھی زیادہ ہو جائے تو تین سو تک تین بکریاں ہیں، اور اگر تین سو سے زیادہ ہوں تو ہر سو میں ایک بکری ہے، اور جو جانور اکٹھے ہوں انہیں زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ نہ کیا جائے، اور نہ ہی جو الگ الگ ہوں انہیں اکٹھا کیا جائے، اور اگر مال میں دو شخص شریک ہوں تو دونوں اپنے اپنے حصہ کے موافق زکاۃ پوری کریں ۱؎، اور زکاۃ میں عامل زکاۃ کو بوڑھا، عیب دار اور جفتی کا مخصوص بکرا نہ دیا جائے، الا یہ کہ عامل زکاۃ خود ہی لینا چاہے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1807]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8545) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مثلاً دو شریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں، اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں ہیں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں،زکاۃ وصول کرنے والا آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے، اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں، اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالیسے بنتے ہیں جن میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہو گی اور ۲۵ چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہو گی، اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپئے واپس کرے گا، اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے دس بکریاں لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ ادا کرے گا۔
۲؎: یعنی جب کسی مصلحت کی وجہ سے محصل (زکاۃ وصول کرنے والا) کسی عیب دار یا بوڑھے یا نر جانور کو لینا چاہے تو صاحب مال پر کوئی زور نہیں کہ وہ دے ہی دے اور محصل کی مرضی کے بغیر اس قسم کے جانور کو زکاۃ میں دینا منع ہے، مصلحت یہ ہے کہ مثلاً عیب دار جانور قوی اورموٹا ہو، دودھ کی زیادہ توقع ہو، یا زکاۃ کے جانور سب مادہ ہوں، ان میں نر کی ضرورت ہو تو نر قبول کرے یا بوڑھا جانور ہو لیکن عمدہ نسل کا ہو تو اس کو قبول کرے۔ «واللہ اعلم» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   جامع الترمذيفي خمس من الإبل شاة وفي عشر شاتان وفي خمس عشرة ثلاث شياه وفي عشرين أربع شياه وفي خمس وعشرين بنت مخاض إلى خمس وثلاثين فإذا زادت ففيها ابنة لبون إلى خمس وأربعين فإذا زادت ففيها حقة إلى ستين فإذا زادت فجذعة إلى خمس وسبعين فإذا زادت ففيها ابنتا لبون إلى تسعين
   سنن أبي داودفي خمس من الإبل شاة وفي عشر شاتان وفي خمس عشرة ثلاث شياه وفي عشرين أربع شياه وفي خمس وعشرين ابنة مخاض إلى خمس وثلاثين فإن زادت واحدة ففيها ابنة لبون إلى خمس وأربعين فإذا زادت واحدة ففيها حقة إلى ستين فإذا زادت واحدة ففيها جذعة إلى خمس وسبعين فإذا زادت واح
   سنن ابن ماجهفي أربعين شاة شاة إلى عشرين ومائة فإذا زادت واحدة ففيها شاتان إلى مائتين فإن زادت واحدة ففيها ثلاث شياه إلى ثلاثمائة فإن زادت ففي كل مائة شاة لا يفرق بين مجتمع لا يجمع بين متفرق خشية الصدقة كل خليطين يتراجعان بالسوية ليس للمصدق هرمة ولا ذات عوار ولا تي
   سنن ابن ماجهفي أربعين شاة شاة إلى عشرين ومائة إذا زادت واحدة ففيها شاتان إلى مائتين إن زادت واحدة ففيها ثلاث شياه إلى ثلاثمائة إذا كثرت ففي كل مائة شاة ووجدت فيه لا
   سنن ابن ماجهفي خمس من الإبل شاة في عشر شاتان في خمس عشرة ثلاث شياه في عشرين أربع شياه في خمس وعشرين بنت مخاض إلى خمس وثلاثين إن لم توجد بنت مخاض فابن لبون ذكر

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1807 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1807  
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
اگر دو شخص اپنی اپنی بکریاں ملا کر ایک ریوڑ بنا لیں تو انہیں خلیط کہا جاتا ہے۔
یہ اشتراک اس صورت میں معتبر ہے جب دونوں ریوڑوں کا چرواہا، باڑا، پانی کا انتظام اور افزائش نسل کے لیے سانڈ مشترک ہو۔ (موطأ إمام مالك، الزکاة، باب صدقة الخلطاء: 1؍242)
اگر اشتراک اس قسم کا ہو کہ ہر فریق کی اپنی اپنی بکریاں ہیں تو اسے خلطة (اختلاط)
کہتے ہیں۔
اگر ہر بکری مشترک ہو مثلا دو آدمیوں نے پیسے ملا کر چند بکریاں خرید لیں تو یہ خلطہ نہیں شرکہ (اشتراک)
ہے۔
برابری کی بنیاد پر حساب کتاب کرنے کی مثال یہ ہے کہ چالیس چالیس بکریوں والے دو افراد نے اختلاط کرکے اپنا ایک ریوڑ بنالیا۔
زکاۃ وصول کرنے والے نے جس شخص کی بکریوں میں سے زکاۃ کی بکری وصول کی، دوسرا آدمی اسے آدھی بکری کی قیمت ادا کرے گا۔
اگر بکریوں میں کمی بیشی ہو تو اسی نسبت سے حساب کر کے ایک دوسرے کو ادائیگی کردیں گے۔
مصدق زکاۃ دینے والا اگر اپنی خوشی سے عمدہ جانور یا سانڈ دینا چاہے تو اس سے وصول کر لیا جائے لیکن زکاۃ وصول کرنے والا خود طلب نہ کرے۔
اگر اس لفظ کو مُصَدِّقْ (زکاۃ وصول کرنے والا)
پڑھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر عامل کسی فائدے کے پیش نظر عیب دار یا بوڑھا جانور لینا پسند کرے تو زکاۃ ادا کرنے والا گناہ گار نہیں، مثلاً:
ممکن ہے کہ ایک جانور لنگڑا ہو لیکن اس میں گوشت زیادہ ہو یا وہ عمدہ نسل کا ہونے کی وجہ سے دوسرے جانوروں سے بہتر سمجھا جاتا ہو اس طرح بیت المال کو یا جس مستحق کے حصے میں وہ آئے اسے زیادہ فائدہ حاصل ہو جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1807   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1568  
´چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کی کتاب لکھی، لیکن اسے اپنے عمال کے پاس بھیج نہ پائے تھے کہ آپ کی وفات ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی تلوار سے لگائے رکھا پھر اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمل کیا یہاں تک کہ وہ وفات پا گئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات تک اس پر عمل کیا، اس کتاب میں یہ تھا: پا نچ (۵) اونٹ میں ایک (۱) بکری ہے، دس (۱۰) اونٹ میں دو (۲) بکریاں، پندرہ (۱۵) اونٹ میں تین (۳) بکریاں، اور بیس (۲۰) میں چار (۴) بکریاں ہیں، پھر پچیس (۲۵) سے پینتیس (۳۵) تک میں ایک بنت مخاض ہے، پینتیس (۳۵) سے زیادہ ہو جائے تو پینتالیس (۴۵) تک ایک بنت لبون ہے، جب پینتالیس (۴۵) سے زیادہ ہو جائے تو ساٹھ (۶۰) تک ایک حقہ ہے، جب ساٹھ (۶۰) سے زیادہ ہو جائے تو پچہتر (۷۵) تک ایک جذعہ ہے، جب پچہتر (۷۵) سے زیادہ ہو جائے تو نوے (۹۰) تک دو بنت لبون ہیں، جب نوے (۹۰) سے زیادہ ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو حقے ہیں، اور جب اس سے بھی زیادہ ہو جائیں تو ہر پچاس (۵۰) پر ایک حقہ اور ہر چالیس (۴۰) پر ایک بنت لبون واجب ہے۔ بکریوں میں چالیس (۴۰) سے لے کر ایک سو بیس (۱۲۰) بکریوں تک ایک (۱) بکری واجب ہو گی، اگر اس سے زیادہ ہو جائیں تو دو سو (۲۰۰) تک دو (۲) بکریاں ہیں، اس سے زیادہ ہو جائیں تو تین سو (۳۰۰) تک تین (۳) بکریاں ہیں، اگر اس سے بھی زیادہ ہو جائیں تو ہر سو (۱۰۰) بکری پر ایک (۱) بکری ہو گی، اور جو سو (۱۰۰) سے کم ہو اس میں کچھ بھی نہیں، زکاۃ کے ڈر سے نہ جدا مال کو اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھا مال کو جدا کیا جائے اور جو مال دو آدمیوں کی شرکت میں ہو وہ ایک دوسرے سے لے کر اپنا اپنا حصہ برابر کر لیں، زکاۃ میں بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے گا۔‏‏‏‏ زہری کہتے ہیں: جب مصدق (زکاۃ وصول کرنے والا) آئے تو بکریوں کے تین غول کریں گے، ایک غول میں گھٹیا درجہ کی بکریاں ہوں گی دوسرے میں عمدہ اور تیسرے میں درمیانی درجہ کی تو مصدق درمیانی درجہ کی بکریاں زکاۃ میں لے گا، زہری نے گایوں کا ذکر نہیں کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1568]
1568. اردو حاشیہ: بکریاں تین سو ہوں تو تین بکریاں زکوۃ ہو گی، تین سوننانوے تک۔ چار سو پوری ہوں تو چار بکریاں ہوں گی چار سوننانوے تک۔ علی ھذا القیاس.
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1568   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1805  
´بکریوں کی زکاۃ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم نے ایک تحریر پڑھائی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کے سلسلے میں اپنی وفات سے پہلے لکھوائی تھی، اس تحریر میں میں نے لکھا پایا: چالیس سے ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری زکاۃ ہے، اگر ۱۲۰ سے ایک بھی زیادہ ہو جائے تو اس میں دو سو تک دو بکریاں ہیں، اور اگر ۲۰۰ سے ایک بھی زیادہ ہو جائے تو اس میں ۳۰۰ تک تین بکریاں ہیں، اور اگر اس سے بھی زیادہ ہو تو ہر سو میں ایک بکری زکاۃ ہے، اور میں نے اس میں یہ بھی پایا: متفرق مال اکٹھا نہ کیا جائے، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1805]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
گائے یا اونٹنی ایک وقت میں ایک بچہ دیتی ہیں لیکن بکریاں زیادہ بچے دیتی ہیں، اس لیے بکریوں کے ریوڑ میں بچے زیادہ ہوتے ہیں۔
اس چیز کے پیش نظر شریعت نے بکریوں میں زکاۃ کی شرح کم رکھی ہے۔
ریوڑ کی بکریوں اور بچوی کی کل تعداد اگر چالیس سے کم ہو تو اس مال پر کوئی زکاۃ فرض نہیں۔
چالیس سے ایک سو بیس کی تعداد پر زکاۃ صرف ایک بکری ہے۔
ایک سو اکیس سے دو سو تک کے ریوڑ پر زکاۃ میں دو بکریاں ادا کرنا واجب ہے۔
دو سو ایک سے تین سو ننانوے تک زکاۃ کی مقدار تین بکریاں ہے۔
جب چار سو پوری ہوں گی تو چار بکریاں ادا اور وصول کی جائیں گی۔
اس سے زیادہ تعداد میں جتنے پورے سو ہوں گے، اتنی ہی بکریاں زکاۃ ہو گی۔
پورے سینکڑوں سے زائد بکریوں پر زکاۃ نہیں۔
الگ الگ ریوڑوں کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے، مثلاً:
دو آدمیوں کے پاس چالیس چالیس بکریاں تھیں جن میں سے ہر ریوڑ پر ایک ایک بکری زکاۃ ہے۔
انہیں کل دو بکریاں ادا کرنا تھیں۔
انہوں نے اپنی بکریاں ملا کر ایک ریوڑ بنا لیا۔
اس طرح اسی (80)
بکریوں پر ایک ہی بکری زکاۃ دے کر ایک بکری بچا لی۔
جب وصول کرنے والا چلا گیا تو دونوں پھر الگ الگ ہو گئے۔
ایک ریوڑ کے دو ریوڑ بنا کر زکاۃ بچا لینے کی مثال یہ ہے کہ دو آدمیوں کے مشترکہ ریوڑ میں دو سو بیس بکریاں تھیں، لہٰذا ان پر تین بکریاں زکاۃ ہے انہوں نے اس کے دو ریوڑ بنا لیے جن میں سے ہر ایک ریوڑ میں ایک سو دس بکریاں ہیں۔
اس طرح ہر ریوڑ پر ایک بکری زکاۃ واجب ہوئی اور مجموعی طور پر دو بکریاں زکاۃ دی گئیں اور ایک بکری بچا لی گئی یا کسی ریوڑ میں ساتھ بکریاں تھیں جن پر ایک بکری زکاۃ ہے۔
انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے تیس تیس کے دو ریوڑ بنا لیے گئے۔
جن پر کوئی زکاۃ نہیں۔
ایک ریوڑ کے دو یا دو ریوڑوں کو ایک بنانے کا عمل زکاۃ وصول کرنے والے افسر (عامل)
کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے تاکہ زیادہ زکاۃ وصول ہو یہ بھی منع ہے۔
اس کی مثال سو بکریوں کو پچاس پچاس کے دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے تاکہ ایک کے بجائے دو بکریاں وصول ہوں یا دو ایسے ریوڑوں کو ایک قرار دینا جن میں سے ہر ایک میں ایک سو پندرہ بکریاں تھیں تاکہ دو بکریاں وصول ہوں یا دو ایسے ریوڑوں کو ایک قرار دینا جن میں سے ہر ایک میں ایک سو پندرہ بکریاں تھیں تاکہ دو بکریوں کے بجائے تین بکریاں وصول کی جائیں۔
سانڈے سے مراد وہ نر جانور ہے جو ریوڑ میں افزائش نسل کے لیے رکھا جاتا ہے۔
اس کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ مالک کے لیے قیمتی ہے جب کہ بوڑھا اور عیب دار جانور جس مستحق کو دیا جائے گا اس کی حق تلفی شمار ہوگی کیونکہ وہ اس سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔
یہ حکم اس لیے دیا گیا کہ نہ زکاۃ دینے والے کو نقصان ہو نہ زکاۃ لینے والے کو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1805   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 621  
´اونٹ اور بکری کی زکاۃ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کی دستاویز تحریر کرائی، ابھی اسے عمال کے پاس روانہ بھی نہیں کر سکے تھے کہ آپ کی وفات ہو گئی، اور اسے آپ نے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا ۱؎، آپ وفات فرما گئے تو ابوبکر رضی الله عنہ اس پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہو گئے، ان کے بعد عمر رضی الله عنہ بھی اسی پر عمل پیرا رہے، یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہو گئے، اس کتاب میں تحریر تھا: پانچ اونٹوں میں، ایک بکری زکاۃ ہے۔ دس میں دو بکریاں، پندرہ میں تین بکریاں اور بیس میں چار بکریاں ہیں۔ پچیس سے لے کر پینتیس تک میں ایک سال کی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 621]
اردو حاشہ:
1؎:
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی قرآن کی طرح کتابتِ حدیث کا عمل شروع ہو گیا تھا،
بیسیوں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (قرآن کے علاوہ) اپنے ارشادات و فرامین اور احکام خود بھی تحریر کرائے اور بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو احادیث مبارکہ لکھنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔
(تفصیل کے لیے کتاب العلم عن رسول ﷺ کے باب ماجاء فی رخصۃ کتابۃ العلم میں دیکھ لیں۔

2؎:
یہ حکم جانوروں کے مالکوں اور محصّلین زکاۃ دونوں کے لیے ہے،
متفرق کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمیوں کی چالیس بکریاں الگ الگ رہنے کی صورت میں ہر ایک پر ایک ایک بکری کی زکاۃ واجب ہو،
جب زکاۃ لینے والا آئے تو تینوں نے زکاۃ کے ڈر سے اپنی اپنی بکریوں کو یکجا کر دیا تاکہ ایک ہی بکری دینی پڑے۔

3؎:
اس کی تفسیر یہ ہے کہ مثلاً دو ساجھی دار ہیں ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہیں کل ملا کر دو سو دو بکریاں ہوئیں،
ان میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے،
جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ ایک ایک واجب ہو ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

4؎:
مثلاً دو شریک ہیں،
ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں،
اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں زکاۃ وصول کرنے والا آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں،
فرض کیجیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے،
اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں،
کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالیسے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہو گی اور25چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہو گی اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپئے واپس کرے گا اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔

نوٹ:
(سند میں سفیان بن حسین ثقہ راوی ہیں،
لیکن ابن شہاب زہری سے روایت میں کلام ہے،
لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 621