عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بوڑھے روزہ دار کو بیوی سے چمٹ کر سونے کی رخصت دی گئی ہے، لیکن نوجوانوں کے لیے مکروہ قرار دی گئی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1688]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5578، ومصباح الزجاجة: 611) (صحیح)» (محمد بن خالد ضعیف ہے، اور عطاء بن سائب اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، خالد واسطی نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کی، نیز ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 2065)
وضاحت: ۱؎: اس میں خطرہ ہے کہ کہیں وہ جماع نہ کر بیٹھیں۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1688
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بوڑھے اور جوان کا یہ فرق سنن بيہقی میں رسول اللہﷺ سے بھی مروی ہے۔ (دیکھئے: 232/4) ۔
(2) عام طور پر بوڑھے کو اپنے آپ پر جو قابو ہوتا ہے جوان آدمی کو نہیں ہوتا۔ اس لئے مسئلہ اس طرح بیان فرمایا گیا۔ اگر کوئی شخص زیادہ عمر کا ہونے کے باوجود جوانوں کی طرح قوت اور جوش رکھتا ہے۔ تو اسے جوان کیطرح پرہیز کرنا چاہیے۔ اور اگر کوئی جوان اسطرح کا جوش نہیں رکھتا بلکہ اپنے آپ پر قابو رکھ سکتا ہے۔ تو اس کے لئے بوڑھے کیطرح اجازت ہوگی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1688