الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
55. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الصَّبْرِ عَلَى الْمُصِيبَةِ
55. باب: مصیبت پر صبر کرنے کا ثواب۔
حدیث نمبر: 1599
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السُّكَيْنِ ، حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَابًا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ، أَوْ كَشَفَ سِتْرًا، فَإِذَا النَّاسُ يُصَلُّونَ وَرَاءَ أَبِي بَكْرٍ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا رَأَى مِنْ حُسْنِ حَالِهِمْ، رَجَاءَ أَنْ يَخْلُفَهُ اللَّهُ فِيهِمْ بِالَّذِي رَآهُمْ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَيُّمَا أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، أَوْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أُصِيبَ بِمُصِيبَةٍ، فَلْيَتَعَزَّ بِمُصِيبَتِهِ بِي عَنِ الْمُصِيبَةِ الَّتِي تُصِيبُهُ بِغَيْرِي، فَإِنَّ أَحَدًا مِنْ أُمَّتِي لَنْ يُصَابَ بِمُصِيبَةٍ بَعْدِي أَشَدَّ عَلَيْهِ مِنْ مُصِيبَتِي".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں) ایک دروازہ کھولا جو آپ کے اور لوگوں کے درمیان تھا، یا پردہ ہٹایا تو دیکھا کہ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اچھی حالت میں دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا، اور امید کی کہ اللہ تعالیٰ اس عمل کو ان کے درمیان آپ کے انتقال کے بعد بھی باقی رکھے گا، اور فرمایا: اے لوگو! لوگوں میں سے یا مومنوں میں سے جو کوئی کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے، تو وہ میری وفات کی مصیبت کو یاد کر کے صبر کرے، اس لیے کہ میری امت میں سے کسی کو میرے بعد ایسی مصیبت نہ ہو گی جو میری وفات کی مصیبت سے اس پر زیادہ سخت ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1599]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17774، ومصباح الزجاجة: 578) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1106)

وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ مومن وہی ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اولاد اور والدین اور سارے رشتہ داروں سے زیادہ ہو، پس جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو یاد کرے گا تو ہر طرح کے رشتہ داروں اور دوست و احباب کی موت اس کے سامنے بے حقیقت ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
موسي بن عبيدة: ضعيف
ولحديثه شواھدضعيفة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 436

   سنن ابن ماجهأيما أحد من المؤمنين أصيب بمصيبة فليتعز بمصيبته بي عن المصيبة التي تصيبه بغيري فإن أحدا من أمتي لن يصاب بمصيبة بعدي أشد عليه من مصيبتي
   المعجم الصغير للطبراني من أصيب منكم بمصيبة من بعدي فليتعز بمصيبته بي عن مصيبته التى تصيبه ، فإنه لن يصاب أحد من أمتي بعدي بمثل مصيبته بي

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1599 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1599  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ کو اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں بھی امت کا خیال تھا۔
چنانچہ جب انھیں نیکی پر قائم دیکھا تو بہت خوشی ہوئی۔

(2)
جب مصیبت پر صبر مشکل محسوس ہورہا ہو تو سوچے کہ اگر میرا عزیز یا بزرگ فوت ہوگیا ہے۔
تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔
یہاں جو بھی آیا اسے جانا ہے۔
جب محمد رسول اللہ ﷺجیسی عظیم شخصیت کی بھی وفات ہوگئی۔
تو پھر اور کون ہے۔
جو ہمیشہ زندہ رہے۔

(3)
حدیث کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب کوئی مصیبت آئے تو مسلمان رسول اللہ ﷺ پر آنے والی مصیبتوں اور مشکلات کو یاد کرے اور نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ کو پیش نظر رکھ کر صبرکرے۔
جس طرح نبی کریمﷺ نے ہر مشکل اور مصیبت کے موقع پر صبرکیا۔
اور مصائب پر جزع فزع کا راستہ اختیار نہیں کیا۔
اسی طرح ہمیں بھی کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1599