سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک جنازے میں آیا، جب انہوں نے اسے قبر میں رکھا تو کہا: «بسم الله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله» اور جب قبر پر اینٹیں برابر کرنے لگے تو کہا: «اللهم أجرها من الشيطان ومن عذاب القبر اللهم جاف الأرض عن جنبيها وصعد روحها ولقها منك رضوانا»”اے اللہ! تو اسے شیطان سے اور قبر کے عذاب سے بچا، اے اللہ! زمین کو اس کی پسلیوں سے کشادہ رکھ، اور اس کی روح کو اوپر چڑھا لے، اور اپنی رضا مندی اس کو نصیب فرما“ میں نے کہا: اے ابن عمر! یہ دعا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، یا اپنی طرف سے پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: اگر ایسا ہو تو مجھے اختیار ہو گا، جو چاہوں کہوں (حالانکہ ایسا نہیں ہے) بلکہ اسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1553]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: 7084، ومصباح الزجاجة: 553) (ضعیف)» (اس کی سند میں حماد بن عبد الرحمن بالاتفاق ضعیف ہیں، ابتدائی حدیث صحیح ہے، کما تقدم: 1550)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ’’ حماد (بن عبد الرحمٰن) متفق علي تضعيفه ‘‘(انظر الحديث السابق:253) وشيخه إدريس بن صبيح: مجهول (تقريب:295) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 434
بسم الله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله لما أخذ في تسوية اللبن على اللحد قال اللهم أجرها من الشيطان ومن عذاب القبر اللهم جاف الأرض عن جنبيها وصعد روحها ولقها منك رضوانا
حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 1553
تخریج الحدیث [سنن ابن ماجه: 1553]، [المعجم الكبير للطبراني 4 1309]، [السنن الكبري للبيهقي: 55/4] تبصرہ: یہ سخت ترین ”ضعیف“ روایت ہے، کیونکہ: ① اس کا راوی حماد بن عبدالرحمن کلبی ”ضعیف“ ہے۔ [تقريب التهذيب: 1502] ◈ حافظ بوصیری (م: 840 ھ) کہتے ہیں: «هذا إسناد فيه حماد بن عبد الرحمن، هو متفق على تضعيفه .» ”اس سند میں حماد بن عبدالرحمن راوی موجود ہے جس کو ضعیف قرار دینے پر تمام محدثین متفق ہیں۔“[مصباح الزجاجة فى زوائد ابن ماجه: 505/1]
② ادریس بن صبیح اودی راوی ”مجہول“ ہے۔ ◈ امام ابوحاتم الرازی نے اسے ”مجہول“ قرار دیا ہے۔ [الجرح و التعديل لابن أبى حاتم: 264/2]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: «يغرب ويخطيء على قلته.» ”بہت کم روایات بیان کرنے کے باوجود اس کی روایات میں نکارت اور غلطیاں موجود ہیں۔“[الثقات: 78/6]
◈ امام ابن عدی نے اسے ادریس بن یزید اودی قرار دیا ہے۔ ◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وقول ابن عدي أصوب.»”امام ابن عدی رحمہ اللہ کا قول ہی زیادہ صائب ہے۔“[تهذيب التهذيب: 171/1، وفي نسخة: 195/1] ↰ یہ بات بے دلیل ہونے کی وجہ سے درست نہیں۔ اس ضعیف روایت کا مروجہ بدعتی تلقین سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ معلوم ہوا شواہد کی رٹ لگانے والوں کا دامن بالکل خالی ہے۔
فائدہ نمبر ① حلبی، علامہ سبکی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: «حديث تلقين النبى صلى الله عليه وسلم لابنه، ليس له أصل، أى صحيح أو حسن.» ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بیٹے کو تلقین کرنے والی روایت کی کوئی صحیح یا حسن سند موجود نہیں۔“[السيرة الحلبية: 437/3]
فائده نمبر ② حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (691-751 ھ) لکھتے ہیں: «فهذا الحديث، وإن لم يثبت، فاتصال العمل به فى سائر الأمصار والأعصار من غير إنكاره كاف فى العمل به.» ”یہ حدیث اگرچہ صحیح ثابت نہیں، لیکن تمام علاقوں میں ہر زمانے میں اس پر بغیر انکار کے عمل ہوتا رہا ہے۔ یہی بات اس پر عمل کے جائز ہونے کے لئے کافی ہے۔“[الروح، ص: 16]
◈ کتاب الروح کے متعلق محدث العصر، علامہ، ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «فاني فى شك كبير من صحة نسبة (الروح) إليه، أو لعله ألفه فى أول طلبه للعلم، والله أعلم.» ”میں کتاب الروح کی علامہ ابن القیم کی طرف نسبت کے حوالے سے کافی شک و شبہ میں مبتلا ہوں۔ (یا تو یہ ان کی تصنیف ہی نہیں) یا پھر انہوں نے اپنے طلب علم کے اوائل میں اسے تالیف کیا تھا۔ «والله اعلم!»“[تحقيق الأيات البينات فى عدم سماع الأموت: 39] ↰ ہو سکتا ہے کہ یہ عبارت الحاقی ہو، یعنی کسی ناسخ کی غلطی سے درج ہو گئی ہو، کیونکہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ خود سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «ولم يكن يجلس يقرا عند القبر، ولا يلقن الميت، كما يفعله الناس اليوم.» ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس قرأت کرنے نہیں بیٹھے تھے، نہ ہی (قبر پر) میت کو تلقین کرتے تھے، جیسا کہ موجودہ زمانے میں لوگ کرتے ہیں۔“[زاد المعاد فى هدي خير العباد: 522/1]
↰ اگر کسی ضعیف روایت کے حکم پر بعض لوگ عمل کریں تو وہ صحیح نہیں ہو جاتی ہے۔ لوگوں کے عمل سے سند کا صحیح ہونا محدثین کرام کا مذہب نہیں۔ اگر کسی روایت کے حکم پر یعنی اس سے ماخوذ مسئلہ پر اجماع امت ثابت ہو جائے، تب بھی وہ سند ”ضعیف“ ہی رہے گی۔
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 466
´میت کو قبر میں داخل کرتے ہوئے یہ دعا` ”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب اپنے مرنے والوں کو قبروں میں اتارو تو «بسم الله وعلى مله رسول الله» کہو۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 466]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت کو قبر میں داخل کرتے ہوئے یہ دعا پڑھنا مسنون ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ کی طرح امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو گو موقوف ہی قرار دیا ہے مگر یہ صحیح نہیں۔ اس کی تائید مستدرک کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کی سند حسن ہے۔ [المستدرك للحاكم: 3661]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 466
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1550
´میت کو قبر میں داخل کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب مردے کو قبر میں داخل کیا جاتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم «بسم الله وعلى ملة رسول الله» اور ابوخالد نے اپنی روایت میں ایک بار یوں کہا: جب میت کو اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا تو آپ «بسم الله وعلى سنة رسول الله» کہتے، اور ہشام نے اپنی روایت میں «بسم الله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله» کہا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1550]
اردو حاشہ: فائده: جب میت کو قبر میں اُتارا جائے۔ تو اتارنے والوں کو چاہیے کہ مذکورہ بالا دعا پڑھیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1550