عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب (منافقین کے سردار) عبداللہ بن ابی کا انتقال ہو گیا تو اس کے (مسلمان) بیٹے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اپنا کرتہ دے دیجئیے، میں اس میں اپنے والد کو کفناؤں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کا جنازہ تیار کر کے) مجھے اطلاع دینا“، جب آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: یہ آپ کے لیے مناسب نہیں ہے، بہرحال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی، اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”مجھے دو باتوں میں اختیار دیا گیا ہے «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم»(سورة التوبة: 80)”تم ان کے لیے مغفرت طلب کرو یا نہ کرو“ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره»(سورة التوبة: 84)”منافقوں میں سے جو کوئی مر جائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1523]
خيرني الله فقال استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة وسأزيده على سبعين قال إنه منافق فصلى عليه رسول الله أنزل الله ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره
خيرني الله فقال استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة وسأزيد على سبعين قال إنه منافق فصلى عليه رسول الله أنزل الله ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1523
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) عبد اللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا۔ جو زندگی بھر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا رہا۔ اور مسلمان کہلانے کے باوجود رسول اللہ ﷺ کو مختلف انداز میں تکلیفیں پہنچاتا رہا۔ لیکن اس کا بیٹا سچا مسلمان تھا۔ اس کا نام بھی عبد اللہ تھا۔
(2) رسول اللہ ﷺ نے عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دلجوئی کےلئے ان کے منافق باپ عبد اللہ بن ابی کو پہنانے کے لئے اپنی قمیص عطا فرمائی۔
(3) کفن کے کپڑے بن سلے ہوتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی خاص صورت حال پیش آ جائے تو سلا ہوا کپڑا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
(4) رسول اللہ ﷺ کو معلوم تھا کہ اس منافق کی بخشش نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود نبی کریمﷺنے اس کےلئے دعا کرنے کا ارادہ فرمایا۔ کیونکہ اللہ سے دعا کرنا ایک نیکی ہے۔ اس کے لئے قبولیت شرط نہیں۔
(5) نفاق ایک قلبی کیفیت ہے۔ جسے اللہ ہی جانتا ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ نے نہیں بتایا رسول اللہﷺ کو بھی یقینی علم نہیں ہوا۔ جیسے کہ ارشاد ہے۔ ﴿وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ﴾(التوبة: 101) مدینے والوں میں سے کچھ ایسے (منافق) ہیں جو نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں۔ بعد میں نبی اکرمﷺ کو بتا دیا گیا۔ اور حکم دیا گیا کہ ان کی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔
(6) ہم ظاہر کے مطابق عمل کے مکلف ہیں جو شخص لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ﷺ کا اقرار کرتا ہے۔ اسے مسلمان سمجھا جائےگا۔ جب تک وہ کوئی ایسا کام نہ کرے۔ جس سے اس کا کافر ہونا ظاہرہو جائے۔ اس لئے جب تک کسی کا کفر ثابت نہ ہوجائے۔ اس کے مرنے پر اس کا جنازہ پڑھا جائےگا۔ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائےگا۔ اس کے مسلمان رشتہ دار اس کے وارث ہوں گے۔ جب کہ غیر مسلم یا مرتد کے احکام اس کے برعکس ہوں گے۔
(7) اگر دل میں ایمان نہ ہوتو کسی برکت والی چیز کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے ظاہری اشیاء سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کے بجائے دل کی اصلاح ضروری ہے۔
(8) جس کا کفر معلوم ہو۔ اس کے حق میں دعائے مغفرت جائز نہیں۔ مثلاً کوئی عیسائی، ہندو یا قادیانی ہمسایہ یا رشتہ دار ہو تو اس کی وفات پر جس طرح اس کا جنازہ نہیں پڑھا جاتا۔ اس کے حق میں دعا کرنا بھی درست نہیں۔ دیکھئے: (التوبة: 113)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1523
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 438
´میت کو ضرورت کے وقت قبر میں داخل کرنے کے بعد باہر نکالنا ` ”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ عبداللہ بن ابی جب فوت ہوا تو اس کا بیٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قمیص عنایت فرما دیں کہ میں اس میں اسے کفن دے دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اتار کر عنایت فرما دی . . .“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 438]
لغوی تشریح: «فَأَعْطَاهُ» اپنی قمیص عطا فرما دی۔ بظاہر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل تدفین سے پہلے ہوا ہے لیکن صحیح بخاری میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اسے قبر میں داخل کر دیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باہر نکالنے کا حکم دیا، اسے باہر نکالا گیا، پھر اسے اپنی قمیص پہنائی۔ [صحيح البخاري، الجنائز، حديث: 1270] علماء نے ان کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے کہا ہے کہ ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے قمیص دینے کا وعدہ فرمایا ہو، دفن کے بعد جب یہ وعدہ یاد دلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص عنایت فرما دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اس لیے عنایت فرمائی تھی کہ غزوہ بدر کے قیدیوں کو آپ نے لباس دیے تھے اور ان میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی قیدی ہو کر آئے تھے، ان کا قد لمبا تھا، کسی کی قمیص انہیں پوری نہیں آتی تھی، عبداللہ بن ابی منافق نے اپنی قمیص دی تو انہیں پوری آ گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس احسان کا بدلہ چکانا چاہتے تھے، اس لیے یہ قمیص اسے پہنائی۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کو ضرورت کے وقت قبر میں داخل کرنے کے بعد باہر نکالنا جائز ہے۔ ➋ اس واقعہ سے انداز لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں سے محبت و شفقت کتنی تھی، اپنے احباب و اصحاب کی خواہش کا کتنا لحاظ رکھتے تھے، اس لیے قوم کے راہنما و قائدین حضرات کو بھی اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
وضاحت: ”عبداللہ بن ابي“ جاہلیت میں خزرج کا سردار تھا اور بظاہر اسلام میں داخل ہونے کا دعویٰ کیا لیکن حقیقت میں منافقین کا لیڈر رہا اور رئیس المنافقین کے لقب سے مشہور تھا۔ غزوہ احد کے موقع پر لشکر کا تہائی حصہ لےکر واپس ہو گیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ افک میں مرکزی کردار اسی کا تھا۔ سورۃ منافقون میں آیت: «لَئِنَ رَّجَعْناَ اِلَي الْمَدِيْنَةِ لّيُخْرِجَنَّ الَّاعَزُّ مِنْهَا الْاذَلٌ»[المنافقون: 8:63] اسی کے متعلق ہے، یعنی اس نے کہا تھا کہ جب ہم مدینے لوٹ کر جائیں گے تو مدینے کا سب سے باعزت شخص (خود کو مراد لے رہا تھا) وہاں کے ذلیل ترین شخص کو ضرور نکال دے گا۔ اور اس ذلیل شخص سے اس خبیث کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور اس نے کہا تھا: «لَا تُنْفِقُوْ عَلٰي مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ حَتّٰي يَنْفَضُّو» یعنی ”تم اللہ کے رسول کے آس پاس رہنے والوں پر خرچ نہ کرو حتی کہ وہ یہاں سے بھاگ جائیں۔“ ذی القعدہ ۹ ہجری میں فوت ہوا۔ «أُبَي» کے ”ہمزاد“ پر ضمہ اور ”یا“ پر تشدید ہے۔ سلول اس کی ماں کا نام تھا۔ «اِبْنُهُ» اس سے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی ابن سلول رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ ان کا شمار عظیم اور صاحب فضل صحابہ میں ہوتا تھا۔ تمام غزوات میں شریک رہے اور جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ ان کا رویہ اپنے باپ کے بارے میں سب سے زیادہ سخت تھا۔ جب عبداللہ بن ابی نے «لئن رجعنا . . . الخ» کہا تھا تو انھوں نے اپنے باپ کی گردن اڑا دینے کی اجازت طلب کی تھی۔ جاہلیت کے دور میں ان کا نام حباب تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ رکھا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 438
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1901
´کفن میں قمیص کے ہونے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) مر گیا، تو اس کے بیٹے (عبداللہ رضی اللہ عنہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، (اور) عرض کیا: (اللہ کے رسول!) آپ مجھے اپنی قمیص دے دیجئیے تاکہ میں اس میں انہیں کفنا دوں، اور آپ ان پر نماز (جنازہ) پڑھ دیجئیے، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی کر دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص انہیں دے دی، پھر فرمایا: ”جب تم فارغ ہو لو تو مجھے خبر کرو میں ان کی نماز (جنازہ) پڑھوں گا“(اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوئے) تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو کھینچا، اور کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین پر نماز (جنازہ) پڑھنے سے منع فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں دو اختیارات کے درمیان ہوں (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم»”تم ان کے لیے مغفرت چاہو یا نہ چاہو دونوں برابر ہے“(التوبہ: ۸۰) چنانچہ آپ نے اس کی نماز (جنازہ) پڑھی، تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی: «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره»”تم ان (منافقین) میں سے کسی پر کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھو، اور نہ ہی ان کی قبر پر کھڑے ہو“(التوبہ: ۸۴) تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1901]
1901۔ اردو حاشیہ: ➊ عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ انتہائی مخلص مسلمان تھے۔ ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر مندرجہ بالا گزارشات کرنا فطری چیز ہے۔ ہر بیٹا خصوصاً نیک بیٹا ماں باپ کی بھلائی چاہتا ہے۔ چونکہ عبداللہ بن ابی ظاہراً کلمہ گو تھا، اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے شاید اس کی مغفرت ہو جائے، بالخصوص جبکہ ابھی منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کی بابت کوئی واضح حکم بھی نہیں آیا تھا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے مطالبات کو تسلیم فرما لینا دراصل اس مسلمان بیٹے کی دلداری کے علاوہ آپ کی رحمۃ للعالمینی کا بھی مظہر تھا۔ اس واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ممانعت کا حکم نازل فرما دیا۔ ➋ ”قمیص دے دی“ کہا گیا ے کہ یہ قمیص دراصل اس قمیص کے بدلے کے طور پر دی تھی جو قمیص عبداللہ بن ابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بدر کی جنگ کے قیدی کی حیثیت میں دی تھی۔ ➌ ”روکا نہیں؟“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ جب اس کی مغفرت ممکن نہیں تو مسلب یہی ہے کہ جنازہ نہ پڑھو مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے انداز بیان میں امید کی کرن دیکھی کیونکہ صراحتاً حکم ممانعت نہ تھا، ہاں مشرک کے لیے استغفار سے صراحتاً روکا گیا تھا مگر عبداللہ بن ابی منافق تھا، مشرک نہ تھا، منافق کا حکم بعد میں اترا۔ ➍ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے کہ قمیص بھی کفن میں شامل ہو سکتی ہے۔ لیکن دیگر دلائل و احادیث کی روشنی میں یہ استدلال محل نظر ہے کیونکہ ان میں خود آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لیے تین کپڑوں کا انتخاب ہوا اور یقیناًً جواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تجویز ہوا وہی افضل ہے۔ رہی بات جواز کی تو صورتِ حال کا جائزہ لینے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک اتفاقی واقعہ تھا جو عام جواز کی دلیل نہیں بن سکتا، وہ اس طرح کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قمیص کا مطالبہ کیا تھا جو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجودِ مسعود پر تھی اور خاص کر آپ کی جلد کے ساتھ لگی تھی، آپ اس کا انکار نہ فرما سکے بلکہ تالیف قلب اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حوصلہ افزائی کی خاطر آپ نے انہیں دے دی بلکہ عبداللہ بن ابی کو خود پہنا دی جیسا کہ صحیح بخاری (حدیث: 1270) میں ہے۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس قمیص کا بدلہ تھا جو آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو عبداللہ بن ابی نے دی تھی جبکہ وہ جنگ بدر کے بعد قیدی بنے کیونکہ ان کی قمیص پھٹی ہوئی تھی اور عام پیمائش کی قمیص انہیں پوری نہیں آئی تھی تب انہیں وہ قمیص مرحمت کی گئی عبداللہ بن ابی قدآور انسان تھا۔ بہرحال اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم کا پتا چلتا ہے کہ آآکو اس کے منافق ہونے کا یقین تھا، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اسلام اور دیگر مسلمانوں کے لیے اس کی ایذا بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی، اس کے باوجود آپ نے اسے قمیص پہنائی اور اس کا جنازہ پڑھا۔ ➎ منافق پر اس کے ظاہر کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا میں اسلام والے احکام جاری ہوں گے۔ ➏ آدمی زندہ ہو یا مردہ، اس کی حقیقت کے بارے میں اظہار کیا جا سکتا ہے، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن ابی کے منافق ہونے کا اظہار کیا ہے، یہ لاتسبوا الاموات (مردوں کو برا بھلا نہ کہو) میں شامل نہیں۔ ➐ آدمی صاحب علم و فضل شخصیت کو کوئی ایسا کام کرتے دیکھے جسے وہ خلاف شرع سمجھتا ہے تو وہ استفسار کر سکتا ہے۔ ➑ صاحب فضل شخص کو اچھی طرح وضاحت کر کے اس آدمی کا اشکال دور کرنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1901
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5796
5796. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب عبداللہ بن ابی مرگیا تو اس کا بیٹا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنی قمیض دیں تاکہ میں اپنے باپ کو اس کا کفن دوں، نیز آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں اور اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ نبی ﷺ نے اسے اپنی قمیض دے دی اور فرمایا: ”جب(اسے غسل دے کر) تم فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع کرنا۔“ چنانچہ جب وہ فارغ ہوئے تو آپ ﷺ کو اطلاع دی۔ آپ تشریف لائے تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں، لیکن حضرت عمر بن خطاب ؓ نے (بڑے ادب سے) آپ کو پیچھے کھینچا اور عرض کی: اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا؟ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا نہ کریں، اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لیے بخشش کی دعا کریں گے تو اللہ تعالٰی انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔“ پھر یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5796]
حدیث حاشیہ: آپ نے فرمایا مجھے اللہ پاک نے اختیار دیا ہے منع نہیں فرمایا اور میں ستر بار سے بھی زیادہ دعا کروں گا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی ستر بار کافر یا منافق کے لیے فائدہ نہ بخشے تو سمجھ لینا چاہیئے کہ کسی اور عالم یا درویش کی دعا سے کافر یا منافق کیونکر بخشا جائے گا اور جو ایسی ایسی حکایتوں پر اعتماد کرے وہ محض بے وقوف اور جاہل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5796
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5796
5796. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب عبداللہ بن ابی مرگیا تو اس کا بیٹا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنی قمیض دیں تاکہ میں اپنے باپ کو اس کا کفن دوں، نیز آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں اور اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ نبی ﷺ نے اسے اپنی قمیض دے دی اور فرمایا: ”جب(اسے غسل دے کر) تم فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع کرنا۔“ چنانچہ جب وہ فارغ ہوئے تو آپ ﷺ کو اطلاع دی۔ آپ تشریف لائے تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں، لیکن حضرت عمر بن خطاب ؓ نے (بڑے ادب سے) آپ کو پیچھے کھینچا اور عرض کی: اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا؟ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا نہ کریں، اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لیے بخشش کی دعا کریں گے تو اللہ تعالٰی انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔“ پھر یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5796]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے منع نہیں فرمایا اور میں اس کے لیے ستر بار سے بھی زیادہ مرتبہ دعا کروں گا۔ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بدفطرت کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے تھے جو ایک مخلص مسلمان تھے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ قمیص پہننا جائز ہے اور اس کا ذکر متعدد احادیث میں آیا ہے۔ (3) واضح رہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن ابی منافق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنی قمیص دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص دے کر اس احسان کا بدلہ دیا تھا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5796