الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
8. بَابُ : مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الْمَيِّتِ
8. باب: میت کو غسل دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1460
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُبْرِزْ فَخِذَكَ، وَلَا تَنْظُرْ إِلَى فَخِذِ حَيٍّ، وَلَا مَيِّتٍ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم اپنی ران نہ کھولو، اور کسی زندہ یا مردہ کی ران نہ دیکھو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1460]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الجنائز 32 (3140)، (تحفة الأشراف: 10133)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/146) (ضعیف جدًا) (بشربن آدم ضعیف ہیں، نیز سند میں دو جگہ انقطاع ہے، ابن جریج اور حبیب کے درمیان، اور حبیب اورعاصم کے درمیان، ملاحظہ ہو: الإرواء: 269)» ‏‏‏‏

وضاحت: : ۱؎ اس حدیث کو مؤلف نے اس باب میں اس لئے ذکر کیا ہے کہ مردے کو غسل دینے میں اس کی ران نہ کھولیں اور نہ ستر بلکہ کپڑا ستر پر ڈھانپ کر غسل دیں کیونکہ ستر مردہ اور زندہ کا یکساں ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف جدًا
سنن أبي داود (4015،3140)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 429

   سنن أبي داودلا تنظرن إلى فخذ حي ولا ميت
   سنن أبي داودلا تنظر إلى فخذ حي ولا ميت
   سنن ابن ماجهلا تنظر إلى فخذ حي ولا ميت

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1460 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1460  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ٹانگ کا گھٹنے سےاوپر کا حصہ فخد (ران)
کہلاتا ہے۔
اور اس سے متعلق یہ (1460)
روایت ضعیف ہے۔
اسی لئے اس کے متعلق علماء میں اختلاف ہے۔
کہ یہ ستر میں شامل ہے یا نہیں اور کسی کی ران کو دیکھنا شرعا جائز ہے یا ممنوع۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اس طرف معلوم ہوتا ہے۔
کہ یہ ستر میں شامل تو نہیں تاہم اسے چھپانا افضل ہے۔
اس کے بارے میں اما م بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے۔
ابن عباس جرہد اور محمد بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی جاتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ران ستر ہے۔
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نبی کریمﷺنے اپنی ران سے کپڑاہٹا دیا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سند کے لحاظ سے زیادہ قوی ہے۔
اور حضرت جرہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث پر عمل کرنے میں احتیاط ہے۔
تاکہ علماء کے اختلاف سے نکل جایئں۔
۔
۔ (صحیح البخاري، الصلاۃ، باب مایذکر فی الفخذ، قبل حدیث: 371)
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے احکام الجنائز میں ران کے ستر ہونے کو ترجیح دی ہے۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے (اِنَّ الْفَخِذَ عَوْرَۃٌ)
ران ستر ہے والی حدیث کو حسن قرار دیاہے۔ (جامع ترمذي، الأدب، باب ما جاء ان الفخذ عورۃ، حدیث: 2795)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1460   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4015  
´ننگا ہونا منع ہے۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی ران نہ کھولو اور کسی زندہ یا مردہ کی ران کو نہ دیکھو۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث میں نکارت ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الحمام /حدیث: 4015]
فوائد ومسائل:
یہ روایت ضعیف ہے، تاہم یہ بات صحیح ہے کہ عذر شرعی کے بغیر ران ننگی کرنا یا کسی کی ران دیکھنا جائز نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4015