انس بن حکیم کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ جب تم اپنے شہر والوں کے پاس پہنچو تو ان کو بتاؤ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”مسلمان بندے سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ فرض نماز ہو گی، اگر اس نے اسے کامل طریقے سے ادا کی ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ کہا جائے گا کہ دیکھو کیا اس کے پاس کچھ نفل ہے؟ اگر اس کے پاس نفل نمازیں ہوں گی تو اس سے فرض میں کمی پوری کی جائے گی، پھر باقی دوسرے فرائض اعمال کے ساتھ ایسا ہی کیا جائے گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1425]
أول ما يحاسب به العبد بصلاته فإن صلحت فقد أفلح وأنجح وإن فسدت فقد خاب وخسر فإن انتقص من فريضته شيء قال انظروا هل لعبدي من تطوع فيكمل به ما نقص من الفريضة ثم يكون سائر عمله على نحو ذلك
أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة صلاته فإن وجدت تامة كتبت تامة وإن كان انتقص منها شيء قال انظروا هل تجدون له من تطوع يكمل له ما ضيع من فريضة من تطوعه ثم سائر الأعمال تجري على حسب ذلك
أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة من عمله صلاته فإن صلحت فقد أفلح وأنجح وإن فسدت فقد خاب وخسر فإن انتقص من فريضته شيء قال الرب انظروا هل لعبدي من تطوع فيكمل بها ما انتقص من الفريضة ثم يكون سائر عمله على ذلك
أول ما يحاسب به العبد المسلم يوم القيامة الصلاة المكتوبة فإن أتمها وإلا قيل انظروا هل له من تطوع فإن كان له تطوع أكملت الفريضة من تطوعه ثم يفعل بسائر الأعمال المفروضة مثل ذلك
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1425
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز ہمارے شیخ نے بھی تحقیق میں اس کی بابت لکھا ہے۔ کہ آئندہ آنے والی حدیث کے بعض حصے ا سکے شاہد ہیں۔ علاوہ ازیں مذکورہ روایت سنن ابو داؤد میں بھی ہے۔ وہاں پر ہمارے شیخ لکھتے ہیں۔ کہ یہ روایت بھی سنداً ضعیف ہے۔ لیکن اس کے بعد آنے رالی روایت (866) اس سے کفایت کرتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسندالإمام أحمد: 300، 299/15)
(2۔ اس حدیث میں فرض نماز کی اہمیت بیان ہوئی۔
(3) فرض نماز، فرض روزے، فرض حج۔ اور فرض زکواۃ پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ کہ ان میں حتیٰ المقدور کوتاہی نہ ہو۔
(4) نفل نمازوں، نفل روزوں، نفل حج وغیرہ اور نفل صدقات وخیرات کی اہمیت بھی بہت زیاد ہ ہے۔
(5) نفل نمازوں میں سب سے اہم وہ نمازیں ہیں۔ جنھیں سنت مؤکدہ کہا جاتا ہے۔ اور وہ فرض نماز سے پہلے یا بعد میں ادا کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد نماز تہجد اہم ہے۔
(6) روانہ ہونے والے شاگرد کو مناسب نصیحت کرنا بہت مفید ہے تاکہ وہ آئندہ زندگی میں اس سے فائدہ اٹھائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1425
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 466
´نماز پر محاسبہ ہونے کا بیان۔` حریث بن قبیصہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا، وہ کہتے ہیں: میں نے دعا کی، اے اللہ! مجھے کوئی نیک ہم نشیں عنایت فرما، تو مجھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہم نشینی ملی، وہ کہتے ہیں: تو میں نے ان سے کہا کہ میں نے اللہ عزوجل سے دعا کی تھی کہ مجھے ایک نیک ہم نشیں عنایت فرما تو (مجھے آپ ملے ہیں) آپ مجھ سے کوئی حدیث بیان کیجئیے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، ہو سکتا ہے اللہ اس کے ذریعہ مجھے فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”(قیامت کے دن) بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کے بارے میں بازپرس ہو گی، اگر یہ درست ہوئی تو یقیناً وہ کامیاب و کامراں رہے گا، اور اگر خراب رہی تو بلاشبہ ناکام و نامراد رہے گا“، راوی ہمام کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم یہ قتادہ کی بات ہے یا روایت کا حصہ ہے، اگر اس کے فرائض میں کوئی کمی رہی تو اللہ فرمائے گا: ”دیکھو میرے بندے کے پاس کوئی نفل ہے؟ (اگر ہو تو)۱؎ فرض میں جو کمی ہے اس کے ذریعہ پوری کر دی جائے، پھر اس کا باقی عمل بھی اسی طرح ہو گا۔“[سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 466]
466 ۔ اردو حاشیہ: ➊ابوعوام اور ہمام دونون حضرت قتادہ کے شاگرد ہیں۔ دونوں سند کے بیان کرنے میں مختلف ہیں جیسا کہ اس حدیث اور اگلی حدیث کی سندیں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ حضرت ہمام کی سند میں حضرت حسن کے استاد حریث بن قبیصہ ہیں جب کہ ابوعوام کی سند میں حسن کے استاد ابورافع ہیں۔ ➋معلوم ہوا کہ نوافل اور سنن کی ادائیگی میں قطعاً سستی نہیں کرنی چاہیے تاکہ فرائض کی تکمیل اور رفع درجات کا فائدہ حاصل ہو۔ کون ہے جو فرائض کی صحیح ادائیگی کا دعویٰ کر سکے؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 466
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 467
´نماز پر محاسبہ ہونے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن سب سے پہلے بندہ سے اس کی نماز کے بارے میں بازپرس ہو گی، اگر وہ پوری ملی تو پوری لکھ دی جائے گی، اور اگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ کہے گا: دیکھو تم اس کے پاس کوئی نفل پا رہے ہو کہ جس کے ذریعہ جو فرائض اس نے ضائع کئے ہیں اسے پورا کیا جا سکے، پھر باقی تمام اعمال بھی اسی کے مطابق جاری ہوں گے۔“[سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 467]
467 ۔ اردو حاشیہ: بعض روایات میں ہے کہ سب سے پہلے ”قتل“ کا فیصلہ کیا جائے گا۔ [صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6533، وصحیح مسلم، القسامة والمحاربین، حدیث: 1687] یہاں نماز کا ذکر ہے۔ تطبیق یہ ہے کہ حقوق اللہ میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا اور حقوق العباد میں قتل کا۔ یا پوچھ گچھ پہلے نماز کی ہو گی اور فیصلہ سب سے پہلے قتل کا ہو گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 467
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 413
´قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے محاسبہ کا بیان۔` حریث بن قبیصہ کہتے ہیں کہ میں مدینے آیا: میں نے کہا: اے اللہ مجھے نیک اور صالح ساتھی نصیب فرما، چنانچہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کے پاس بیٹھنا میسر ہو گیا، میں نے ان سے کہا: میں نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ مجھے نیک ساتھی عطا فرما، تو آپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے، جسے آپ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہو، شاید اللہ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا محاسبہ ہو گا، اگر وہ ٹھیک رہی تو کامیاب ہو گیا، اور اگر وہ خراب ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 413]
اردو حاشہ: 1؎: یہ کمی خشوع خضوع اور اعتدال کی کمی بھی ہو سکتی ہے، اور تعداد کی کمی بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ آپ نے فرمایا ہے ”دیگر سارے اعمال کا معاملہ بھی یہی ہو گا“ تو زکاۃ میں کہاں خشوع خضوع کا معاملہ ہے؟ وہاں تعداد ہی میں کمی ہو سکتی ہے، اللہ کا فضل بڑا وسیع ہے، عام طور پر نماز پڑھتے رہنے والے سے اگر کوئی نماز رہ گئی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ معاملہ فرما دے گا، إن شاء اللہ۔
2؎: یعنی: ان کے نام میں اختلاف ہے، قبیصہ بن حریث بھی کہا گیا ہے، اور حریث بن قبیصہ بھی کہا گیا ہے، تو زیادہ مشہورقبیصہ بن حریث ہی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 413